پریشان ہوئیں اور کہا کاش میں اس سے پیشتر ہی مر جاتی اور بھولی بسری ہوجاتی تاکہ کوئی میری یہ حالت نہ دیکھ سکتا۔ اس پر بھی ان سے کہا گیا کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم ہی کرو… اگر کوئی آدمی ملے تو کہہ دینا کہ میں نے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے روزہ کی نذر کی ہے۔ اس لئے آج کسی سے بات نہیں کروں گی۔ (یعنی باقی معاملہ کو ہم خود نمٹ لیں گے۔) اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد ہوتے تو نہ ہی مریم علیہا السلام کو اس قسم کی کوئی پریشانی لاحق ہوتی اور نہ ہی انہیں لوگوں کے کہنے پر خاموش رہنے کا امر ہوتا بلکہ انہیں امر ہوتا کہ وہ کہہ دے کہ کوئی بات نہیں لو یہ میرا شوہر ہے۔ میں نے کوئی غلط یا ناجائز بات نہیں کی۔ کیا یہ واضح دلیل نہیں اس بات کی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی والد نہ تھے؟
یہودیوں کا بہتان
۶… اب حضرت مریم علیہا السلام اپنے نومولود بابرکت بچہ کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی تو انہوں نے کہا: ’’یٰمریم لقد جئت شیئاً فریا یاخت ہرون ما کان ابوک امرا سوء وما کانت امک بغیا (مریم:۲۷،۲۸)‘‘ {اے مریم تو نہایت سنگین اور بہت بڑی برائی لائی ہو۔ تمہارا والد تو برا آدمی نہ تھا۔ اور نہ ہی تیری ماں فاحشہ تھی۔}
اس سے ظاہر ہے کہ مریم صدیقہ علیہا السلام پر ان کی قوم نے فاحشہ (زنا) کا الزام لگایا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کو اپنے مادر وپدر کا حوالہ دیا کہ وہ دونوں تو نہایت نیک تھے۔ انہوں نے تو کوئی برائی نہیں کی تھی تو اتنے سنگین کام کرنے پر کس طرح آمادہ ہوئی۔ یعنی جس کے خاندان کے سب افراد نیک اور صالح ہوں اور ان میں برائی نام کی بھی نہ ہو ان کی بیٹی اگر ایسا سنگین کام کرے تو بڑی عجیب وافسوس کی بات ہے۔ اور اسی سورۃ نساء میں اس طرح واضح فرمایا:
’’وبکفرہم وقولہم علی مریم بہتانا عظیماً (النسائ:۱۵۶)‘‘ {یعنی ان یہودیوں نے مریم علیہ السلام پر بڑا بہتان لگایا۔}
اچھا تو اس الزام سے بچنے کے لئے مریم علیہا السلام نے کیا کیا؟
حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام کا جواب
قرآن عظیم فرماتا ہے۔ ’’فاشارت الیہ (مریم:۲۹)‘‘ یعنی مریم نے ان کی اس بات کا جواب اس طرح دیا کہ صرف بچہ کی طرف اشارہ کردیا۔ انہوں نے کہا ایسے بچے سے ہم کیا بات کریں جو جھولے میں جھولنے والا ہو یعنی بہت صغیر ہے۔ (وہ تو بات کر بھی نہیں سکتا۔) ہر منصف مزاج یہ سوچ لے کہ اگر مریم علیہا السلام کا شوہر تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد تھے،