ایک عذرلنگ اور اس کا ازالہ
بعض کوتاہ اندیشوں نے یہ خیال کیا کہ دنیا میں یہ جو ایک خلفشار اور افراتفری نظر آتی ہے۔ وہ مذہب کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے انہوں نے دنیا کے تمام مشہور مذاہب کی بجائے ’’انکار مذہب‘‘ کے نام سے ایک جداگانہ مذہب کی داغ بیل ڈالی۔ وہ نہ سمجھ سکے کہ سر کے درد کا علاج سر کو دھڑ سے الگ کر دینا نہیں ہے۔ ضرورت درد کو ختم کرنے کی ہے نہ کہ سر کو ۔ پھر وہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ جس پودے کو خاردار جھاڑی قرار دے کر وہ بیخ وبن سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔ اسی کا پودا کشت زار عالم میں وہ اپنے ہاتھوں سے لگا رہے ہیں۔ مذہب سے انکار کے نام پر ایک جداگانہ مکتب فکر کی بنیاد ڈال کر مذاہب کے شمار میں اضافہ کررہے ہیں ۔
کثرت مذاہب کی جو الجھن آپ کو پریشان کررہی ہے۔ اس سے رہائی حاصل کرنے کے لئے یہ طریقہ قطعاً غیر معقول ہے کہ آپ سرے سے مذہب کا انکار کردیں۔ اپنے جسم کو زندہ رکھنے کے لئے آپ کی روزمرہ کی جو ضروریات ہیں۔ ان کی فہرست شیطان کی آنت سے بھی لمبی ہے۔ پھر ہر ضرورت کی تکمیل کے اسباب اور وسائل بھی بہت زیادہ سامنے آتے ہیں۔ مثلاً خوردنی وپوشیدنی ضروریات کے سلسلہ میں آپ بازار کارخ کرتے ہیںتو دکانوں پر آپ کو ماکولات وملبوسات کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔ تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں؟ یہی نا سوچ بچار سے کام لیتے ہیں۔ اپنے مزاج اورپسند کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اپنی جیب کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مال کی نفاست اور پائیداری کو بھی دیکھتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر جو چیز آپ مناسب سمجھتے ہیں۔ فیصلہ کر کے لے لیتے ہیں۔ اسی طرح علاج معالجہ کے سلسلہ میں بھی آپ کو الجھن پیش آتی ہے۔ ایلو پیتھک ، ہومیو پیتھک، آیورویدک، بایوکیمک، یونانی، دیسی، انگریزی۔ کئی قسم کے طریق علاج سامنے آتے ہیں۔ پھر ہر ہر قسم میں کئی کئی افراد اپنی دکانیں سجائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ قدم قدم پر آپ کوسائن بورڈ لگے نظرآتے ہیں۔ توکیاعلاج کے مختلف طور طریقے دیکھ کر اپنے مریض کو اس کے حال پرچھوڑ دیتے ہیں۔ہرگز نہیں۔ بلکہ صلاح مشورہ اورسوچ بچار کے بعد آپ کو معالج کا انتخاب کرناہی پڑتاہے۔ الغرض کثرت میں سے وحدت کاانتخاب تو آپ کا روزمرہ کا کام ہے۔ پھر آپ مذاہب کی کثرت دیکھ کر گھبراتے کیوں ہیں؟ یہاں بھی وہی نسخہ استعمال کریں۔ تدبر اورتفکر سے کام لیجئے۔ قرآن پاک کوکھول دیکھئے۔ وہ آپ سے اندھا دھند تو اپنی عظمت کا لوہا نہیں منواتا۔