خلیفۃ اﷲ ہونے کامنصب حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت بہ نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ سو برس کے پورے ہونے تک حضرت عیسیٰ ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہوا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۶۹، خزائن ج۳ ص۴۶۱)
اب یا تو مماثلت تامہ کا تقاضا پورا کرنے کے لئے چودہ سو برس کے محدثین کے نام گنوائیے جو نبی کہلائے جارہے ہوں۔ ورنہ تو آپ کو اس قسم کی بڑ ہانکنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ’’فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکافرین‘‘
یکتائے امت کے علمی حدود اربعہ
ادھر مرزاقادیانی پوری امت میں یکتا اور بے ہمتا ہونے کے دعوے دار ہیں۔ جگہ جگہ اپنی وسعت علم کے بارے میں شیخیاں بگھارتے ہیں۔ لیکن وہ ایسی غلط باتیں کر جاتے ہیں کہ متاع علم سے تہی داماں ہونے میں وہ قاضی ’’رطل بوق‘‘ کو بھی مات کر جاتے ہیں۔ چند مثالیں ہدیہ قارئیں ہیں:
۱… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرتﷺ وہی ایک یتم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مر گئی تھی۔‘‘
(پیغام صلح ص۳۸، خزائن ج۲۳ ص۴۶۵)
پرائمری کا طالبعلم بھی جانتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے والد بزرگوار حضرت عبداﷲ آپ کی ولادت سے پہلے ایک سفر میں فوت ہو گئے تھے۔ آپ ابھی شکم مادر میں تھے اور جس وقت آپﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا آپ کی عمر چھ برس تھی۔ چار سال کی عمر تک تو آپﷺ مائی حلیمہ کے ہاںمقیم رہے۔ اس کے بعد اپنی والدہ کے پاس آچکے تھے کہ وہ آپ کو ہمراہ لے کر مدینہ کے سفر کو گئیں اور وہیں ابوا کے مقام پر فوت ہوگئیں۔ مرزاقادیانی کی یہ ناواقفیت حیرت انگیز بھی ہے اور افسوسناک بھی۔
۲… مرزاقادیانی اپنے لڑکوں کی پیدائش کے بارے میں لمبی چوڑی پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ ان پیشگوئیوں کی کڑیاں وہ کیونکر ملاتے ہیں۔ نمونہ ملاحظہ ہو۔ وہ اپنے چوتھے لڑکے مبارک احمد کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’جب ۱۳؍جون ۱۸۹۹ء کا دن چڑھا… تو خداتعالیٰ کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا میں نے سنا ’’انی اسقط من اﷲ واصیبہ‘‘ یعنی اب میرا وقت آگیا اور میں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا اور پھر اسی کی طرف جاؤں اور اسی لڑکے نے اسی طرح پیدائش سے پہلے یکم؍جنوری