مرزاقادیانی کا سجدۂ سہو
ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ شبہ پیش کرے کہ مرزاقادیانی تو عیسائیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ عمر بھر تحریری اور تقریری طور پر عیسائی پادریوں سے مناظرے کرتے رہے۔ اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھتے رہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انگریزی حکومت کے خیرخواہ اور دعاگو ہوں تواس بارے میں جواباً ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ مشہور مثل تو آپ نے سنی ہوگی۔ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ بے شک مرزاقادیانی مضمون بازی کرتے رہے۔ لیکن انگریزوں کی تائید میں جو کچھ لکھتے رہے اسے اب کوئی چاٹ تو نہیں سکتا۔ نہ اتنا بڑا ذخیرہ تصنیفات جو انگریز کی حمایت میں تیار ہوا اور اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ خرد بردکیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازاں! مرزاقادیانی نے جب بھی اپنی تحریرات کی وجہ سے انگریز بہادر کے تیور بدلتے دیکھے تو فوراً انہوں نے سجدہ سہو ادا کیا۔ عذر تقصیر کے طور پر بڑے بڑے پوسٹر نکالے پمفلٹ لکھے دست بستہ عرضیاں پیش کیں۔ مرزاقادیانی کی کتاب تبلیغ رسالت اٹھا کر دیکھئے آپ کو اس موضوع پر بہت سا مواد مل جائے گا۔ (کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ) میں بھی ایسے اشتہارات اور درخوستیں موجود ہیں۔ ان کی ایک درخواست مورخہ ۲۰؍اگست ۱۸۹۹ء بحضور عالی شان قیصرہ ہند ملکہ معظمہ شہنشاہ ہندوستان، انگلستان کے عنوان سے چھپی ہوئی موجود ہے۔ جس کا نام مرزاقادیانی نے (ستارہ قیصرہ، خزائن ج۱۵) تجویز کیا۔
’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست‘‘ مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۹ء مرزاقادیانی کی کتاب (تریاق القلوب، خزائن ج۱۵) میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ ہم اپنے دل پر پتھر باندھ کر اس کے چند جملے یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ ان درخواستوں میں کیا لکھا جاتا تھا۔
’’بیس برس کی مدت سے میں نے اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں۔ جن میں باربار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے۔ جس کے ترک سے وہ خداتعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیرخواہ اور دلی