وغیرہ وغیرہ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اس نے ایک جگہ بھی ان کے والد کا ذکر نہ فرمایا۔ حالانکہ ان کے والد کا ذکر ان سب سے زیادہ ان کی الوہیت کے ابطال کے لئے مؤثر اور وزنی دلیل ہوتا۔ کیا اس سے صاف طور پر واضح نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن والد پیدا ہونے سے قرآن کریم کو انکار نہیں؟
حکم ربی انکار کیوں؟
۲… قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بہت سی جگہوں پر ذکر وارد ہے اور ہر جگہ ’’المسیح ابن مریم‘‘ عیسیٰ ابن مریم کہا گیا ہے۔ کہیں بھی ’’المسیح‘‘ بن فلاں یا عیسیٰ بن فلاں نہیں کہا گیا کیوں؟۔حالانکہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ :
’’ادعوہم لابآئہم ہو اقسط عند اﷲ‘‘ {یہی بات اﷲ تعالیٰ کے نزدیک انصاف کی بات ہے۔ یعنی لوگوںکو ان کے اپنے باپوں کی طرف منسوب کرو۔ (احزاب:۵)}
ادھر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے پھر وہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہر جگہ ان کی والدہ محترمہ مریم علیہا السلام کی طرف ہی منسوب کرتا رہا ہے کیا والد کی طرف منسوب کرنے میں کوئی قباحت تھی؟
اس کا جواب کسی عقل مند اہل علم کے پاس اس کے سوائے کچھ اور نہیں کہ چونکہ فی الواقع ان کا کوئی والد ہی نہ تھا اس لئے ان کو والدہ محترمہ کی طرف ہی منسوب کیا۔
حضرت جبرائیل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشارت
۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے واقعہ پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ (مریم پ۱۶) میں دیکھئے۔ حضرت جبرائیل الروح الامین علیہ السلام مریم صدیقہ علیہا السلام کے پاس ایک کامل نوجوان انسان کی صورت میں تشریف لاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فاتخذت من دونہم حجابا فارسلنا الیہا روحنا فتمثل لہا بشراً سویا‘‘ {اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ گئیں تو ہم نے اس کی طرف اپنی روح (فرشتہ) کو بھیجا جو ایک انسان کی شکل میں مریم کے سامنے آگیا۔ (مریم: ۱۷)}
اب حضرت مریم علیہما السلام اپنی خلوت گاہ میں ایک نوجوان مرد کو اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گئیں اور بولیں:
’’قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیّا‘‘ {وہ (مریم) بولی اگر تمہیں کچھ اﷲ کا خوف ہے تو میں تم سے اﷲ کی پناہ مانگتی ہوں۔ (مریم: ۱۸)}