غیر معتاد (Unusual) طریقہ سے تھی۔ اگر اس کی زندگی کا باقی حصہ۱؎ اور زندگی کا اختتام بھی معمول سے ہٹ کر ہو تو کون سی تعجب کی بات ہوگی؟ اگر اﷲ تعالیٰ اسے پرواز کی طاقت دے کر کرہ ارض سے غائب کردے۲؎ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اسے زمین پر لے آئے تو عقل اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیوں کر کرسکتی ہے؟ خلا بازی کے اس دور میں آپ کی سوچ کیا کہتی ہے؟ عقل خادم ہے۔ نقل مخدوم، عقل کو نقل کے تابع رکھنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ برعکس، ورنہ تو: ’’بگڑی ہوئی عقل سے حماقت بہتر!‘‘
حیات ونزول مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں قرآن کریم کا گہرا مطالعہ
شاعر مشرق فرماتے ہیں:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحب کشاف
۱؎ یہ حصہ خواہ کتنا طویل ہو، دو ہزار سال کا ہو یا دو لاکھ سال کا، اﷲ ہمارے دنوں اور مہینوں کے پیمانہ کا پابند نہیں ہے۔ اﷲ کا قرآن ہی تو ہمیں بتاتا ہے: ’’انہم یرونہ بعیداً ونراہ قریباً(المعارج، ۶،۷)‘‘ {یہ لوگ اس دن کو بعید دیکھ رہے ہیں اور ہم اس کو قریب دیکھ رہے ہیں۔} تو اس قریب پر کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟
۲؎ اس غائب ہونے کے بارے میں حضرت مسیح علیہ السلام خود تو نہیں فرماتے کہ: ’’میں اوپر چلا گیا۔‘‘ وہ تو اﷲ تعالیٰ بتا رہے ہیں کہ: ’’میں نے اسے اپنے پاس اٹھالیا۔‘‘ پھر بھی شک وارتیاب کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے؟ چودھویں صدی کے خطیب اعظم حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میرے میاںﷺ نے یہ کب کہا تھا کہ میں معراج کو گیا وہ تو لے جانے والے نے کہا ہے کہ میں اسے لے گیا اور سادہ انداز بیان میں بھی نہیں۔ بات شروع کی تو سبحان سے تمہید باندھ کر۔ اب اگر اس کی قدرت کاملہ کو مانتے ہو تو واقعۂ معراج کی صداقت تسلیم کرلو ورنہ تو جائو۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ کہیں بھی رسول اﷲﷺ نے بصیّغ معلوم عالم بالا کے سفر کا واقعہ بیان نہیں فرمایا، احادیث معراج پڑھ کر دیکھئے۔ ’’اسری بی، عرج بی‘‘ کے الفاظ آتے ہیں۔ اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی کہیں رفع کی یا نزول کی نسبت اپنی طرف نہیں کی، وہ تو ہمیں آنحضرتﷺ نے بتایا کہ ’’بعثۃ اﷲ یا یبعث اﷲ‘‘