پانچویں بددیانتی
قادیانی مولوی اپنے رسالہ کے ص۱۴۴ میں آیت کریمہ لو تقول علینا بعض الاقاویل کے متعلق علامہ ممدوح کے اس بیان کے غلط کرنے کے لئے کہ: ’’اس بعض کے لفظ لے جھوٹی متہم کو خارج کردیا۔‘‘ لکھتے ہیں: ’’اب آیت کا مطلب کس قدر صاف ہوگیا کہ قرآن مجید کو اقوال مفترات جانتے تھے اور اسی کے بارے میں حضور پرنور پر نقول کا الزام لگاتے تھے۔‘‘
پھر آئے چل کر لکھتے ہیں: (پس بعض الاقاویل سے بے شک ہذا القرآن مراد ہے۔) جب ہی تو آیت کی ابتداء تنزیل من رب العالمین سے ہوئی۔ افسوس ہے کہ مولوی صاحب علامہ ممدوح کی مخالفت میں ایسے گرتے ہیں کہ اپنے پیرومرشد مر زا قادیانی کے قول کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ یا قصداً نظر انداز کردیتے ہیں۔ مرزا قادیانی متوفی اپنے خط مورخہ۴؍جنوری ۱۸۹۳ء میں لکھتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ تو اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ اگر وہ ایک قول بھی اپنی طرف سے بناتا تو اس کی رگ جان قطع کی جاتی۔‘‘ (آئینہ حق نما ص۱۵۰)
اب قادیانی مولوی یا تو مرزا قادیانی کی نافہمی کو تسلیم کریں یا اپنی غلطی بلکہ تحریف کا اقرار کریں۔
قادیانی مولوی کا یہ کہنا ہے کہ : ’’جب ہی تو آیت کی ابتداء تنزیل من رب العالمین سے ہوئی۔‘‘ صریح غلطی ہے۔ یا محض بے علمی۔
تنزیل من رب العالمین سے آیت کی ابتداء نہ تو ترکیب الفاظ کے لحاظ سے ہوسکتی ہے اور نہ مضمون کے لحاظ سے۔ اس لئے کہ ترکیب الفاظ کے لحاظ سے تنزیل من رب العالمین ان کی (جو انہ لقول رسول کریم میں مذکور ہے) چوتھی خبر ہے۔ اگر ہو مبتداء محذوف مانیں تو یہ خبر جملہ ہوگی۔ ورنہ مفرد۔ اس آیت کو مابعد کی آیت کے ساتھ ترکیب الفاظ کے لحاظ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور مضمون کی ابتدائ: ’’فلا اقسم بما تبصرون ومالا تبصرون‘‘ سے ہوئی ہے۔ چونکہ انہ لقول رسول کریم سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ کلام الٰہی نہیں ہے۔ اس لئے اس شبہ کے دور کرنے کے لئے صاف لفظ میں فرما دیا گیا۔ کہ تنزیل من رب العالمین یعنی قرآن پروردگار کے یہاں سے نازل کیا گیا۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر اور تفسیر خازن اور تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ تفسیر کبیر کی عبارت یہ ہے: ’’لما قال فیما تقدم انہ لقول رسول کریم انتبعہ بقولہ تنزیل من رب العالمین حتیٰ یزول الا شکال‘‘ (ج۸ ص۲۹۱) {چونکہ پہلے نہ