اب اگر کوئی شخص محمدﷺ پر (جیسا کہ حضورﷺ نے اپنے آپ کو پیش کیا) ایمان نہیں لاتا تو وہ نہ تو رسولﷺ کا امتی کہلانے کا حق دار ہے اور نہ خدا کابندہ۔ بلکہ وہ ہوائے نفسانی کا بندہ اور مکائدشیطانی کاشکارہے اور جس طرح عقیدہ رسالت پرایمان لائے بغیر ایک آدمی محض لاالہ کہنے سے موحد نہیں بن سکتا۔اسی طرح آنحضرت ﷺ کی تعلیمات اور تشریحات پر ایمان لائے بغیر محض ’’محمدرسول اﷲ‘‘کہہ دینے سے بھی آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا اور اگر بنیادی عقائد اور مرکزی نظریات و افکار میں ایک شخص کی گمراہی آشکارا ہو جائے تو محض اس لئے کہ وہ زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھ دیتاہے۔اسے مسلمان قرار دینا نہ تو اسے مستحسن رواداری کہا جا سکتا ہے اور نہ خدا اور رسولﷺ سے وفاداری اسے برداشت کر سکتی ہے۔
اسلام سے انحراف کی مختلف صورتیں
جیسا کہ عرض کیاجاچکا ہے، اسلام تو محمدﷺ سے وابستگی کا نام ہے۔ اب ہر وہ صورت جو اس روحانی رشتہ کو کاٹ دے،خدا اوراس کے بندوں کے درمیان بعد پیدا کرے،وہ اسلام سے انحراف اور اﷲ کے دین سے بغاوت کہلائے گی۔ پھر اگر تلاش وجستجو سے کام لے کر وہ صورتیں معلوم کرنا چاہیں جو اسلام سے بغاوت قرار دی جا سکتی ہیں، تو وہ تین ہیں:
اوّل! یہ کہ محمدﷺ کی رسالت کا کھلم کھلا انکار کر دیا جائے جیسا کہ یہود ،نصاریٰ ، ہنود اور دوسری گمراہ قومیں کھلم کھلا حضورﷺ کو نبی اور رسول ماننے سے انکاری ہیں۔
دوم! یہ کہ حضورﷺ کی رسالت کا اعتراف کرلیا جائے لیکن یہ کہا جائے کہ آپﷺ اﷲ کے ایلچی بن کر آئے۔ اس کے بندوں تک آپﷺ نے قرآن پہنچادیا اور بس۔ گویاآپﷺ کی حیثیت ایک پوسٹ مین کی سی تھی کہ آپﷺ اپنا فریضہ سرانجام دے کر اپنے اﷲ سے جاملے۔ اس سے زائد آپﷺ کو اﷲ کے بندوں سے کوئی تعلق اورواسطہ نہ تھا۔ نعوذ باﷲ من ذالک۔ اس صورت میں اگرچہ کھلم کھلا حضورﷺ کی نبوت کا انکار نہیں ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ باغیانہ مزاج ہونے کی صورت میں یہ صورت پہلی سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
سوم! یہ کہ حضورﷺ کی نبوت کے ساتھ آپ کے حق تشریع کو بھی مان لیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ حضورﷺ کی تعلیمات کو من مانی تشریحات کا لبادہ اوڑھادیا جائے۔ حضورﷺ کے ارشادات اورفرامین صدیوں تک جن تشریحات اور وضاحتوں سے امت میں نقل ہوتے چلے آئے۔ ان کے برخلاف اپنے نہاں خانہ دماغ سے تعبیرات نکالی جائیں۔ ضرورت یا اپنی پسند کے