مرزاقادیانی کی دروغ گوئی
یوں تو دروغ گوئی بری وصف ہے ہی۔لیکن خاص طور پرحدیث کے سلسلہ میں غلط بیانی اوردروغ گوئی سے کام لینا اوربرا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ حدیث سے دین کے مسائل بنتے ہیں۔ اب اگر فی الواقع ایک بات حضورﷺ نے نہ فرمائی ہو اورایک آدمی اسے حضورﷺ کی طرف منسوب کر دے تو وہ دین میں مداخلت کر کے’’دین سازی‘‘ میں اﷲ اوراس کے رسولﷺ کا شریک بننا چاہتاہے۔ اس وجہ سے علماء محدثین نے یہ قانون بنایا ہے کہ جس شخص کے متعلق ایک دفعہ بھی روایت حدیث میں جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے اس کی کوئی روایت قابل قبول نہیں ہو گی اور محدثین اس کی روایت کو موضوع(یعنی من گھڑت) کانام دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر وہ شخص اس جرم کذب فی الحدیث سے توبہ بھی کر لے۔تب بھی اس کی کوئی روایت قبول نہیں ہوگی۔
ایک ایسا شخص جو متعدد کتابوں کا مصنف ہے۔ایک جماعت اسے اپنا مقتداء اورمذہبی پیشواسمجھتی ہے۔اس پردروغ گوئی کاالزام لگانا ہمیں پسند نہیںتھا۔لیکن کیا کریں کہ اﷲ کا دین زیادہ احترام کا مستحق ہے۔ ہم اظہار حقیقت پر مجبور ہیں۔ بافسوس ہمیں کہناپڑتا ہے کہ مرزا قادیانی نے جب :’’کیف ما امکن‘‘مسیح موعود کی کرسی سنبھال لینے کا عزم کر لیا اور پھر یوں کام نہ چلا تو وہ ناجائز ذرائع(Unfair means) استعمال کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ حتیٰ کہ وہ صریح دروغ گوئی سے بھی نہ چوکے۔ انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے:
’’من کذب علیّٰ متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (ترمذی ج۲ ص۲۱۳)‘‘{جس نے جان بوجھ کر مجھ پرجھوٹ بولا وہ اپناٹھکانا دوزخ میں بنالے۔}
پھر ان کی یہ زیادتی صرف حدیث تک ہی محدود نہ رہی۔قرآن پاک کی طر ف وہ باتیں منسوب کر دیں جو نہ اﷲ نے اپنے نبیﷺ پراتاریں، نہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت تک پہنچائیں۔چند نمونے ملاحظہ ہوں:
۱… ’’اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے…مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے ۔ خاص کروہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی کہ ’’ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اورمرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔ ‘‘ (شہادت القرآن ص۴۱،خزائن ج۶ص۳۳۷)