کہا گیا کہ انہ لقول رسول کریم یعنی یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ کلام الٰہی نہیں ہے۔ اس لئے اس کے بعد یہ فرمایا کہ تنزیل من رب العالمین یعنی یہ قرآن خدا کے یہاں سے نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ وہ شبہ زائل ہوجائے۔}
تفسیر کشاف ص۱۵۲۴ ج۲ اور تفسیر مدارک ص۳۰۴ میں اس طرح ہے:
(تنزیل) ’’ہو تنزیل بیانا لانہ قول رسول نزل علیہ من رب العالمین‘‘ { وہ تنزیل ہے یہ بیان ہے اس بات کا کہ قرآن رسول کا قول اس معنی کے ہے کہ ان پر اتارا گیا ہے پروردگار عالم کے یہاں سے۔ }
اب کوئی سلیم الذہن عربی دان یہ کہہ سکتا ہے کہ آیت کی ابتداء تنزیل من رب العالمین سے ہوئی ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ ترکیب الفاظ اور مضمون دونوں کی انتہا تنزیل من رب العالمین پر ہوئی ہے اور ولو تقول علینا سے دوسرا مضمون شروع ہوا ہے جیسا کہ داود استیناف سے ظاہرہے۔
اور لطف تویہ ہے کہ مولوی صاحب بعض الاقاویل سے ہذا القرآن مراد ہونے کو اس ابتداء کا سبب ٹھہراتے ہیں۔ ماشاء اﷲ کیا تبحر علمی ہے اور کیا قرآن دانی ونعم ما قیل!
گر تو قرآن بدیں نمط خوانی
ببری رونق مسلمانی
چھٹی بددیانتی
قادیانی مولوی اپنے رسالہ کے ص۱۲۳،۱۲۴ میں آیہ کریمہ ولو تقول علینا بعض الاقاویل کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’ناظرین! قرآن مجید کے الفاظ سیاق وسباق سے تو آپ سمجھ چکے۔ اب ہم آپ کو مفسرین کی بھی رائے بتاتے ہیں کہ انہوں نے بھی جلد ہی ہلاک ہونا آیت سے سمجھا ہے۔ تفسیر کشاف سے ہم آئندہ نقل کریں گے۔ یہاں تفسیر کبیر سے نقل کرتے ہیں: ’’او قال شیئاً من عندہ فنسبۃ الینا ولیس کذالک لو جعلناہ بالعقوبۃ(جلد عاشر ص۷۱)‘‘ {یاکچھ اپنی طرف سے کہا اور اس کو میری طرف منسوب کیا اور حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم اس کے عذاب کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔}
اوریہ سمجھنا ان کا بطریق اشارۃ النص ہے۔ کیونکہ آیت کے الفاظ سے تبعاً یہ بات سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ’’لو جعلنا بالعقوبۃ لا خذناہ