سیاق وسباق سے یہی مقصود ہے کہ یہود جو دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھا کر قتل کردیا ہے۔ اور نادان نصاریٰ میں سے کچھ لوگوںنے اس کو تسلیم کرلیا تو اﷲ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ایک انسان کو انہوں نے مار ڈالا اور انہیں اس بات کی حقیقت معلوم نہیں تھی۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ وہ باقی ہیں زندہ ہیں ۔ اور یقینا روز قیامت سے پہلے نازل ہوں گیں ۔ جیسا کہ احادیث متواترہ سے پتہ چلتا ہے ۔ جو ان شاءاللہ ہم قریب ہی بیان کریں گے ۔ تو اس آیت کریمہ نے بتایا کہ اس وقت تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے اور ان مین سے کوئی پیچھے نہیں رہے گا ۔
چند سطور کے بعد پھر بڑے زوردار الفاظ میں اپیے موقف کو دہرایا ہے۔ اور کئی سطریں خرچ کر دی ہیں ۔ ( حوالہ بالا )
سورہ زخرف میں وہ پھر اس آیت کو تائید میں لا کر آیت:61 " وانہ لعلم للساعۃ " کی تفسیر کرتے ہیں ۔
اس مسئلہ میں حدیث کا سرسری مطالعہ
یہ تو آپ پیچھے سورہ کہف کے حوالہ سے پڑھ چکے ہیں کہ رسول اکرمﷺ عقیدہ ولدیت کے عواقب اور نتائج کو سوچ سوچ کر انتہائی کرب ودرد کا سامنا فرماتے تھے، اس کے باوجود ذخیرۂ حدیث پر سرسری نظر دوڑانے سے پتہ چل جاتا ہے کہ:
۱… آپﷺ مسلسل حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تشریف آوری کا ذکر فرماتے رہے۔ مکی زندگی سے لے کر دنیا سے تشریف لے جانے تک لگا تار اس کا اظہار ہوتا رہا۔
۲… باوجود یہ کہ حضرات صحابہ کرامؓ غزوات میں مصروف رہے۔ ان کی ایک بڑی جماعت نزول مسیح علیہ السلام کی روایات کی ناقل ہے۔ اتنی بڑی تعداد تو شاید نماز کی تعداد رکعات اور اوقات نماز کی ناقل بھی نہیں ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عمل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے انہیں تواتر عملی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یہ خالص علم کی بات تھی۔ پھر یہ ان کے زمانہ سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ قیامت سے متعلق ایک پیش گوئی تھی اور بیسیوں صحابہؓ کی روایات اس بارہ میں موجود ہیں۔ تو کیا ہم ان کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟
۳… رسول اکرمﷺ اپنے جمیع کمالات میں لاثانی تھے۔ فصاحت وبلاغت گویا آپؐ کے