تمہارے ہمسائے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے کہ جس میں رسول اﷲﷺ تشریف لے آئے ۔ تو تم اﷲ سے ڈرو! اس شخص کے بارے میں۔ اگر تم نے اسے قتل کردیا تو تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو بھگا دو گے اور اﷲ کی وہ تلوار جو اس وقت میان میں ہے۔ اسے باہر نکال لو گے اور پھر قیامت تک وہ میان میں نہیں جائے گی۔
یہ سن کر بلوائیوں نے کہا: اس یہودی کو بھی قتل کردو اور عثمانؓ کو بھی قتل کردو۔ (ترمذی شریف ج۲ ص۲۲۰ باب مناقب عبداﷲ بن اسلام)‘‘
قارئین کرام! پڑھ لیا آپ نے اس روایت کو، نعوذ باﷲ! یہ ملا دو پیازے کی روایت یا کسی ناول سے نقل نہیں کی گئی۔ حدیث کی ایک نہایت معتبر کتاب سے نقل کی گئی ہے۔ اب ذرا تاریخ اسلام کا مطالعہ کیجئے اور دیکھئے کہ توراۃ کے ایک جلیل القدر عالم، رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک جنتی صحابیؓ، ائمہ محدثین کے ممدوح، بلکہ ’’من عندہ علم الکتاب‘‘ کہہ کر اﷲ رب العزت نے جس کو گواہ بنا کر پیش کیا۔ ان کی وہ پیش گوئی کس طرح پوری ہوئی ادھر وہی امام حدیث، تورات کے حوالہ سے نقل کررہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگی تو وہ آقائے دو جہاںﷺ کے ساتھ دفن ہوں گے۔ اب قارئین فیصلہ کرلیں کہ وہ سیدنا عبداﷲ بن سلامؓ کی بات کو مانیں گے یا اس انشا پرداز کی جو عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کو یہود اور شیعہ کی سازش کا نتیجہ قرار دیتا ہے؟
آنحضرت ﷺ کا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سلام بھیجنا
۱۵…حدیث ابو ہریرہؓ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اگر مجھے عمر نے مہلت دی تو میری ملاقات عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے ہوجائے گی۔ اگر میرا وقت پہلے آگیا تو جو شخص تم (یعنی میری امت) میں سے ان سے ملے۔ انہیں میری طرف سے سلام کہہ دے۔(مسند احمد مبوب ج۲۴ ص۸۹)‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنی طرف سے بھی اپنے شاگرد کو سلام دے دئیے۔
یہ حدیث دو سندوں کے ساتھ مسند احمد میں آئی ہے۔ علامہ ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کرکے لکھا ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح منقول ہے۔ ا ور دونوں کے