’’لن تقوم حتی تکون قبلہا عشر آیات۱؎ طلوع الشمس من مغربہا۲؎ وخروج الدابۃ، وخروج یاجوج وماجوج والدجال وعیسیٰ بن مریم والدخان وثلث خسوف، خسف بالمغرب، وخسف بالمشرق وخسف بجزیرۃ العرب، وآخر ذالک نار تخرج من قعر عدن تسوق الناس الیٰ المحشر (سنن ابی دائود ج۲ ص۱۳۴ باب امرات الساعۃ، مسلم کتاب الفتن والشراط الساعۃ ج۲ ص۳۹۳، ترمذی ج۲ باب ماجاء فی الخسف ص۴۱، ابن ماجہ ص۳۰۴، واللفظ لابی داؤد)‘‘
{قیامت نہیں قائم ہوگی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو: سورج کا مغرب کی سمت سے طلوع ہونا، دابۃ الارض کا ظاہر ہونا۔ یاجوج ماجوج کا نکلنا، دجال اور مسیح ابن مریم کا آنا، دھواں اٹھنا، زمین میں دھنس جانے کے تین اہم واقعات کہ: ایک واقعہ مغرب میں پیش آئے گا، ایک مشرق میں ، اور ایک جزیرۃ العرب میں۔ آخر میں ایک آگ عدن کے نیچے سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔}
۱؎ طلباء کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کتب حدیث میں ان علامات کی ترتیب مختلف آئی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا تصور ہی روح فرسا ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ ہوں یا بعد کے رواۃ حدیث، وہ اس حیثیت سے ان باتوں کو یاد نہیں کرتے تھے کہ کمرۂ امتحان میں بیٹھ کر تحریر کرنا ہے۔ ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب دل ودماغ پر دہشت طاری ہو تو اس کے دوررس اثرات کیا کیا نتائج دکھاتے ہیں؟۔
۲؎ اوپر آپ نے سو رج کا مغرب سے طلوع ہونا پڑھا ہے۔ حوالہ تو مستحضر نہیں ہے۔ لیکن راقم الحروف نے (غالباً حضرت شیخ الاکبر کا قول) کہیں پڑھا ہے کہ ہر و ہ چیز جس کی حرکت مستدیرہ ہو۔ اگر اس کی حرکت روک دی جائے تو وہ چیز پیچھے کو لوٹ آتی ہے۔ اس لئے عقلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ ویسے عالم دنیا کا پورا نظام معطل ہوجائے گا۔ ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اجرام فلکی بھی تباہ ہوکر رہ جائیں گے۔ عالم سفلی بھی تہ وبالا ہوجائے گا۔ وغیرہ وغیرہ!