عبداﷲ بن عمروؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: جناب! یہ کیا قصہ ہے کہ آپ کہتے ہیں فلاں فلاں وقت تک قیامت قائم ہو جائے گی؟ انہوں نے کہا سبحان اﷲ۔ یا لا الٰہ الا اﷲ! مجھے تو یوں خیال آتا ہے کہ کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ تھوڑے عرصہ بعد تم ایک بہت بڑی بات دیکھو گے۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ پھر کہا: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا… ’’فیبعث اﷲ عیسیٰ ابن مریم کأنہ عروۃ بن مسعود الثقفی، فیطلبہ فیہلکہ‘‘ {تو (خروج دجال کے بعد) اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ بن مریم علیہ السلام کو مبعوث فرمائیں گے۔ ان کی شکل ایسی ہوگی جس طرح کہ عروہ بن مسعود ثقفیؓ ہیں۔}
(صحیح مسلم باب ذکر الدجال ج۲ ص۴۰۳، مسند احمد ج۲ ص۱۶۶)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مقام اور کیفیت
۶…حدیث نواس بن سمعانؓ
یہ بھی ایک طویل روایت ہے۔ ہم یہاں صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہاں نزول فرمائیں گے؟ اور کس کیفیت میں؟ تو سنئے!
’’ایک روز رسول اﷲﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا: ’’فخفّض فیہ ورفع‘‘ (یعنی ایک لحاظ سے اس کا معاملہ معمولی حیثیت سے پیش کیا اور ایک لحاظ سے اسے بہت اہمیت دی۔ اس کے بعد اس کے کوائف ذرا تفصیل سے بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا)۱؎ ’’اذ بعثہ اﷲ المسیح ابن مریم علیہ السلام فینز ل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق، بین مہروذتین واضعا کفیہ علی اجنحۃ ملکین، اذا طاطأ راسہ قطر، واذا رفع تحدر منہ جمان کا للؤلو… فیطلبہ حتیٰ یدرکہ عند باب لد فیقتلہ‘‘ (باب ذکر الدجال مسلم شریف ج۲ ص۴۰۱، ابن ماجہ ص۲۹۷، ابو دائود ج۲ ص۱۷۵، ترمذی ج۲ ص۴۸باب ماجافی فتنۃ الدجال، مسند احمد ج۲۴ ص۸۳، تفسیر ابن کثیر باب خروج الدجال)
{اتنے میں اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کو بھیج دیں گے تو وہ دمشق سے مشرقی جانب سفید منارہ کے پاس اتریں گے۔ زعفرانی رنگ کے دو کپڑوں میں ہوں گے۔ اپنے
۱؎ یہ ’’بعث‘‘ کا لفظ وہی ہے جو سورہ کہف میں اصحاب کہف کے بارے میں آیا ہے: ’’وکذالک بعثنا ہم‘‘ (آیت۱۹) ان لوگوں کا بعث ہوسکتا ہے۔ تو کیا وہمی لوگوں کو تردد بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں پیش آگیا ہے؟ فیا للعجب!