دوسری قرأت ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے۔ جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے وقوع کی نشانی اور دلیل ہیں۔ مجاہد تابعیؒ بھی یہی کہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا، قیامت کی نشانی ہے۔ ایسا ہی مروی ہے حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت ابن عباسؓ (حضرت ابن عباسؓ کی یہ تفسیر مسند احمد (مبوب ج۱۸، ص۲۶۶) میں بھی موجود ہے)اور تابعین میں سے ابو العالیہؒ، ابو مالکؒ، عکرمہؒ، حسن بصریؒ، قتادہؒ، ضحاکؒ، اور دوسرے حضرات سے۔
رسول اﷲﷺ سے احادیث تواتر کے ساتھ آئی ہیں کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسٰی علیہ السلام بحیثیت امام عادل نازل ہوں گے۔ (ابن کثیر ج۷ ص۲۱۷)
شاید یہاں کسی قاری کے دل میں یہ کھٹک پیدا ہو کہ جہاں ان کے رفع الی السماء کا ذکر آیا ہے۔ وہیں ان کے نزول کا ذکر کیوں نہیں آیا؟ اول تو یہ سوال کرنا ہی حماقت ہے۔ ایک جگہ ایک چیز کا بیان ہوا۔ دوسرے مقام پر دوسری چیز کا۔ کسی کو جرح وقدح کا کیا حق پہنچتا ہے؟ تاہم اس کا معقول جواب بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ آپ اوپر آیت:۱۵۸ سورہ نساء کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کا ذکر پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد متصل ہی آیت ۱۵۹ کو پڑھئے۔ اس کے یہ الفاظ آپ کے سامنے ہیں۔
’’وان من اہل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ اس کا ترجمہ امام الہند شاہ ولی اﷲ دہلوی قدس سروہ یوں فرماتے ہیں: ’’نباشد ہیچ کس از اہل کتاب، الّا، البتہ ایمان آورد بعیسیٰ پیش از مردن عیسیٰ‘‘ (فتح الرحمن)
اور تفسیری فوائد میں فرماتے ہیں: ’’مترجم گوید یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ را البتہ ایمان آورند‘‘ (حوالہ بالا)
کتب تفسیر میں یوں تو دو احتمال بھی نقل کئے گئے ہیں۔ جن کی نہ واقعات سے تائید ہوتی ہے۔ نہ کلام کے سیاق وسباق سے ، نہ روایات حدیث سے ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ نہ قرآن پاک کی دوسری کوئی آیت ان کی حمایت کرتی ہے۔ اس آیت کی صحیح اور بے غبار تفسیر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت جو اہل کتاب موجود ہوں گے۔ ان میں سے ہر آدمی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا اور یوں باقی ادیان ختم ہوکر