اشراطہا(محمد:۱۸)‘‘ {تو کیا وہ قیامت کے ہی منتظر ہیں؟ وہ تو اچانک ان کے پاس آ جائے گی۔ اور اس کی علامات تو آچکی ہیں۔}
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں انشقاق قمر کو قرب قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے۔ کہیں نفخ صور سے پہلے خروج یاجوج ماجوج کا بیان فرمایا، کہیں خروج دابۃ کا ذکر آگیا۔
بات کچھ لمبی ہوگئی ہے۔ لیکن مسئلہ زیر بحث کو سمجھنے کے لئے یہ ناگزیر تھا۔ اب آئیے اس مسئلہ کی طرف، تو سنئے۔
جہاں تک نزول مسیح علیہ السلام کی تفصیلات کا تعلق ہے وہ تو زیادہ تر احادیث میں ملتی ہیں۔ لیکن قرآن پاک بھی اس بارے میں خاموش نہیں ہے۔ سورۃ الزخرف پارہ: ۲۵ ایک مکی سورت ہے۔ اس میں اصل مخاطب کفار مکہ ہیں۔ ضمناً حضرت مسیح ابن مریم کا ذکر آگیا ہے۔ تو فرمایا:
’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا (الزخرف: ۶۱)‘‘ اس آیت کریمہ کا ترجمہ ہم سے نہ سنئے۔ امام الہند حضر ت شاہ ولی اﷲ دہلوی قدس سرہ اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں: {ہر آئینہ عیسیٰ نشانہ است قیامت را۔} (فتح الرحمن بترجمۃ القرآن زیر آیت مذکور بالا)
امام فخر الدین رازیؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’(وانہ) ای عیسیٰ (لعلم للساعۃ) شرط من الشراطہا تعلم بہ‘‘ (تفسیر کبیر ج۱۴ ص۲۲۲)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام، قیامت کی نشانوں میں سے ایک نشانی ہیں جن سے اس کا پتہ چلتا ہے۔
قاضی بیضاویؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’و انہ وان عیسیٰ لعلم للساعۃ لان حدوثہ او نزولہ من اشراط الساعۃ یعلم بہ دنوہا (تفسیر بیضاوی ص۲۹۴ حصہ۲)‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا یا نازل ہونا قیامت کی علامات میں سے ہے کہ ان کے نزول سے قیامت کا قرب معلوم ہوجائے گا۔}
ہم تفسیری حوالہ جات کہاں تک دئیے چلے جائیں؟ (تفسیر ابن کثیر ج۷ ص۲۱۷) کا یہ مقام قابل دید ہے۔ چند جملوں کا ترجمہ یوں ہے: ’’اس سے مراد قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ہے… دوسری