ایک دین اسلام باقی رہ جائے گا۔ یہی تفسیر سیاق وسباق سے مناسبت رکھتی ہے۔، اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔ اور قرآن پاک کے دوسرے مقام (الزخرف:۶۱) سے بھی ہم آہنگ ہے۔
علامہ ابن کثیرؒ، امام تفسیر ابن جریرؒ سے نقل کرتے ہیں: ’’واولیٰ ہذہ الا قوال بالصحۃ القول الاوّل وہو انہ لا یبقی احدا من اہل الکتاب بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام الا اٰمن بہ قبل موت عیسیٰ علیہ السلام(تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۴۰۲)‘‘ {صحت کے اعتبار سے ان اقوال میں سب سے صحیح پہلا قول ہے اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اہل کتاب میں سے کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ضرور ایمان لائے گا۔}
اور جہاں تک علامہ ابن کثیرؒ کی ذاتی رائے کا تعلق ہے۔ وہ تو نہایت شدومد سے اسی تفسیر کو برحق اور صحیح قرار دیتے ہیں، دوسری کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’وہذا القول ہوالحق کما سنبیّنہ بعد بالدلیل القاطع ان شاء اﷲ تعالیٰ وبہ الثقۃ وعلیہ التکلان۔ (ابن کثیر ج۲ ص۴۰۱)‘‘ {اور یہی قول ہی حق ہے جیسا کہ عنقریب دلیل قطعی سے بیان کریں گے۔ انشاء اﷲ۔ اور اسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے۔}
اور چندسطور کے بعد فرماتے ہیں:
’’ولا شک ان الذی قالہ ابن جریر ہو الصحیح، لانہ المقصود من سیاق الایۃ فی تقریر بطلان ما ادعتہ الیہود من قتل عیسیٰ وصلبہ وتسلیم من سلم لہم من النصاریٰ الجہلۃ ذالک فاخبر اﷲ انہ لم یکن الامر کذالک وانما شبہ لہم فقتلو الشبہ وہم لا یتبینون ذالک ثم انہ رفعہ الیہ وانہ باق حی وانہ سینزل قبل یوم القیامۃ کما دلت علیہ الاحادیث المتواترۃ التی سنوردہا انشاء اﷲ قریبا… فاخبرت ہذہ الایۃ الکریمۃ انہ یؤمن جمیع اہل الکتاب حینئذِ ولا یتخلّف عن التصدیق بہ واحد منہم(ابن کثیر ج۲ ص۴۰۲)‘‘ {اس میں کوئی شک نہیں جو کچھ ابن جریرؒ نے فرمایا ہے وہی صحیح ہے۔ کیونکہ ان آیات کے سیاق