ایک شبہ کا ازالہ
ان آیات سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ قرآن پاک سیدنا مسیح علیہ السلام کے رفع الی السماء پر زور دیتا ہے۔ مگر ان کے نزول کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں ایک بات کو ذہن میں رکھیں کہ قرآن پاک کا اپنا انداز بیان ہے، وہ ایک متن کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی تشریح اور وضاحت اس ذات گرامی کے سپرد کردیتا ہے جس پر وہ نازل ہوا، چنانچہ ارشاد ہے۔
’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم (النحل: ۴۴)‘‘ {اور آپﷺ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے۔ ان کو آپﷺ ان سے ظاہر کردیں۔}
پھر جہاں تک قیامت کا معاملہ ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کو بہت مخفی رکھا ہے، اس راز کو تو کسی پر بھی فاش نہیں کیا کہ وہ کب آئے گی؟ بلکہ جگہ جگہ یہ فرمایا کہ یہ اچانک آئے گی۔ دیکھئے یہ آیات کریمہ:
۱… ’’الیہ یرد علم الساعۃ(حم السجدۃ: ۴۷)‘‘ {قیامت کے علم کا حوالہ خدا ہی کی طرف دیا جاسکتا ہے۔}
۲… ’’وعندہ علم الساعۃ (الزخرف: ۸۴)‘‘ {اور اسی کو قیامت کی خبر ہے۔}
۳… ’’یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسہا، قل انما علمہا عند ربی لا یجعلیہا لوقتہا الّا ہو، ثقلت فی السموات والارض، لا تاتیکم الا بغتۃ، یسألونک کانک حفی عنہا، قل انما علمہا عند اﷲ (الاعراف:۱۸۷)‘‘ {یہ لوگ آپﷺ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ آپؐ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے، اس کے وقت پر اس کو سوائے اﷲ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین پر بڑا بھاری حادثہ ہوگا۔ وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپؐ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپؐ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں۔ آپﷺ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اﷲ ہی کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں مانتے۔}
اس تمام تر راز داری کے باوجود کہیں کہیں اجمالی طور پر چند علامات قیامت کا ذکر آگیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا:
’’فہل ینظرون الا الساعۃ ان نأتیہم بغتۃ۔ فقد جاء