علیہ السلام کے ساتھ ہونی تھی۔ درمیانی تفصیلات ہم اختصار کے پیش نظر حذف کرتے ہیں۔ اب قرآن یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ نہ وہ سولی پر گئے نہ قتل ہوئے بلکہ: ’’رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ یوں آپ انسانی آبادی سے غائب ہوگئے۔ ہماری ڈکشنری چونکہ محدود الفاظ پر مشتمل ہے۔ ہم ارضی مخلوق کے باشندے اس صورتحال کی تعبیر کے لئے اور کوئی لفظ نہیں بول سکتے۔ سوائے اس کے ہم کہیں کہ: آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
۴… اب ان الفاظ قرآنی کو سامنے رکھئے کہ:
الف… رفع الی اﷲ کا لفظ، حضرت مسیح علیہ السلام کے سوا اور کسی کے لئے نہیں آیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع ترقی درجات کے مترادف نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں تو حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
ب… آگے فرمایا گیا ہے: ’’وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ {اﷲ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔} حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اوپر اٹھا لینا نہ تو کچھ مشکل تھا، نہ کسی کو یہ کہنے کی اجازت ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وہ جانے اس کا کام!ْ ہوگی اس میں کوئی حکمت، تم کون ہوتے ہو چوں چرا کرنے والے؟ کیونکہ: ’’لا یسأل عما یفعل وہم یسألون (الانبیائ: ۲۳)‘‘{وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا، اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے}کسی مومن صادق کے لئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کتاب وسنت کے بیان کردہ حقائق کو محض عقلی ڈھکوسلوں سے رد نہ کرے۱؎۔
آگے بڑھنے سے پہلے قرآن کریم کی بلاغت کی مذکورہ بالا مثالوں کو دوبارہ ذہن میں لائیے اور پھر سوچئے کہ اﷲ کے فرمان: ’’رفعہ اﷲ‘‘ اور ’’و کان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ میں کیا مناسبت ہے؟ در اصل تو ان آیات میں ذکر تھا یہود کے جرائم کا اور قرآن نے ان کے اس جرم کو زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا، پھر اس کی پرزور تردید کی، کیا خیال ہے کہ جس چیز کو قرآن پاک اتنی اہمیت دے۔ آج اگر کوئی شخص اس عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کو بے و زن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا وہ یہود کا پیروکار نہ ہوگا؟
۱؎ ہاں! البتہ! اگر کوئی طالب علم اس رفع ونزول کی حکمت دریافت کرنا چاہے تو یہ الگ بات ہے۔ اسے چاہئے کہ تفسیر ابن کثیر اور فتح الباری وغیرہ کا مطالعہ کرے۔