۸… سیدہ مریم بتول علیہا السلام پر بہتان پردازی کرتے تھے۔
۹… (اس کا ذکر ہم آگے کریں گے)
۱۰… حرام خوری میں مبتلا ہوگئے۔ سود لیتے تھے اور علانیہ لوگوں کے مال ناحق ہڑپ کر جاتے تھے۔
۱۱… خود تو گمراہ ہوئے ہی تھے۔ اوروں کو بھی اتباع حق سے روکتے تھے۔ (جیسا کہ گمراہ قوموں کا شیوہ رہا ہے۔)
یہود کے ان جرائم اور کرتوتوں کی وجہ سے ان کے حق میں عذاب الیم کی وعید سنائی گئی۔ (آیت: ۱۶۱)
یہود کے جرائم کی یہ فہرست آپ نے پڑھ لی، درمیان میں جرم نمبر:۹ کا ذکر ہم نے قصداً چھوڑ دیا تھا۔ یہ بات کچھ تفصیل طلب بھی تھی اور یہی ہمارا اصل موضوع ہے۔ اب اس بارے میں سنئے:
۱… واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ یہود کی جرائم پسندی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ کوئی مصلح، حتیٰ کہ حضرات انبیاء علیہم السلام بھی انہیں ان جرائم پر ٹوکتے تو وہ مشتعل ہوجاتے۔ آپ ابھی پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے کتنے انبیاء علیہم السلام کو شہید کردیا تھا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فریضہ تبلیغ ادا کرنا شروع کیا، تو وہ بد بخت ان کی والدہ ماجدہ عفیفہ صدیقہ سیدہ مریم علیہا السلام کے حق میں بہتان پردازی پہلے سے کررہے تھے۔ اب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود کیسے برداشت کرتے؟ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔
۲… ادھر اس وقت ملکی صورت حال یہ تھی کہ فلسطین پر رومیوں کی حکومت تھی۔ آپ اگر تفصیل معلوم کرنا چاہیں تو سورہ بنی اسرائیل پارہ:۱۵ کا آ غاز پڑھ لیں۔ یہاں قیصر روم کی طرف سے ایک گورنر تعینات تھا۔ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف اس کے ہاں بغاوت اور ملکی حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ دائر کردیا۔ وہ گورنر دل سے سمجھتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس الزام سے بری ہیں۔ مگر یہود نے ان کے برخلاف سزائے موت کا فیصلہ صادر کراہی لیا۔
۳… بغاوت کے مجرم کو سولی پر چڑھا کر قتل کردیا جاتا تھا۔ اب یہی کارروائی حضرت عیسیٰ مسیح