کسی مسئلہ پر آدمی قرآن کریم کا مطالعہ کرے تو پہلے سے کوئی فیصلہ کرکے نہ بیٹھ جائے۔ بے شک بجا ہے کہ ’’ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم(الاسرائ:۹)‘‘ {بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔} لیکن جو لوگ العیاذ باﷲ! ’’لعنہم اﷲ بکفرہم ‘‘ کا مصداق بن چکے ہیں۔ ان کی صورتحال دگرگوں ہوتی ہے۔ ’’فلا یؤمنون الا قلیلا‘‘ تبھی تو شیخ شیراز فرماتے ہیں:
باراں کہ در لطافت طبعش خلافت نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
آئیے! ذرا قرآن کریم میں گہرے جا کر مسئلہ زیر بحث کی تحقیق وجستجو کریں۔ قطع نظر اس سے کہ ’’رفع الی اﷲ‘‘ یا ’’رفع الی السمائ‘‘ کہئے اس ذات گرامی سے تعلق رکھتا ہے جو ارضی کم ہے سماوی زیادہ ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ یہ ہیں:
’’بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما۔ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا(النساء ۱۵۸،۱۵۹)‘‘ {بلکہ ان کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اﷲ تعالیٰ بڑے زبردست حکمت والے ہیں اور کوئی شخص اہل کتاب سے نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے مرنے سے پہلے ضرور تصدیق کرے گا۔ اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دیں گے۔}
ان دو آیتوں کا مطلب سمجھنے سے پہلے ذرا سیاق سباق کو دیکھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن کریم، سید الرسلﷺ کا زندہ جاوید معجزہ ہے۔ سبحان اﷲ! اس کی بلاغت کا کیا ٹھکانا ہے کہ کہیں ایک لفظ بھی تو مہمل اور بے معنی نظر نہیں آیا۔ ہر بات موقع محل کے عین مطابق، گویا انگوٹھی میں نگینہ جڑا ہوا ہے۔ کہیں اﷲ تعالیٰ کے قہروجبروت کا ذکر ہے۔ اس کے مطابق اس کی صفات لائی گئی ہیں۔ کہیں غفران ورحمت کا ذکر ہے تو اس کے مطابق دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی سورہ نساء کو شروع سے پڑھیے اور دیکھئے۔
الف… آیت: ۱ میں حکم دیا گیا ہے کہ قرابت داریوں کا پورا پورا خیال رکھا کرو اور اس معاملہ میں اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ : ’’ان اﷲ کان علیکم رقیبا (النسائ:۱)‘‘ {اﷲ تم پر نگران ہے اور وہ تمہاری ایک ایک بات سے واقف ہے۔ }