’’دنیا کے روز مرہ واقعات بھی زمانہ اور شخصیتوں کے اختلاف سے بہت مختلف ہوجاتے ہیںاسی زمین پر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں مہینوں کی رات او ر مہینوں کا دن ہوتا ہے۔ اور ان ہی سمندروں میں ایک سمندر ایسا بھی ہے جس پر موسم سرما میں خشکی کی طرح سواریوں پر چلتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کا اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ شجاعت وطاقت اور دانائی وفرزانگی کے وہ بعید سے بعید کارنامے جو رستم واسفند یار… وغیرہ… کے حق میں بے تأمل قابل تصدیق سمجھتے جاتے ہیں۔ وہ عام انسانوں کے حق میں بمشکل قابل تصدیق ہوسکتے ہیں۔ پس عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے یا صرف اپنے دور اور اپنے زمانہ کے حالات پر قیاس کرکے کسی صحیح واقعہ کا انکار کردینا کوئی معقول طریقہ نہیں ہے۔
نزول مسیح علیہ السلام کا واقعہ، تخریب عالم یعنی قیامت کے واقعات کی ایک کڑی ہے۔ اور تخریب عالم کا ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو عالم کے تعمیری دور کے واقعات سے ملتا جلتا ہو، اگر تخریب عالم کے وہ سب واقعات تعمیری واقعات سے مختلف ہونے کے باوجود، قابل تصدیق ہیں۔ تو پھر اس ایک واقعہ کی تصدیق میں آپ کو تأمل کیوں ہے؟‘‘
(ترجمان السنتہ ج۳ ص۵۲۱، از حضرت مولانا سید محمد بدر عالمؒ)
حضرت والا قدس سرہ کا یہ مقالہ چھیالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ احادیث اس کے بعد نقل کی گئی ہیں، نہایت ایمان افروز اور قابل دید مقالہ ہے۔ پھر ص۵۶۷ سے ۵۹۳ تک احادیث اور ان کی تشریحات چلی گئی ہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام کے موضوع پر اردو زبان میں اس سے بہتر کوئی تالیف راقم کی نظر سے نہیں گزری۔
(نوٹ: مولانا بدر عالمؒ کا متذکرہ رسالہ احتساب قادیانیت کی ابتدائی جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔ مرتب!)
ایک بات اور
سورہ کہف اور سورہ مریم کے مضامین میں ایک اور مناسبت بھی ملحوظ رہے کہ اس کے اخیر میں ذوالقرنین کا قصہ آیا ہے وہ کون تھا۔ کسی دور میں تھا؟۱؎ یہاں ہمیں اس قصہ سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ ذوالقرنین جب تعمیر دیوار سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا تھا۔
۱؎ اس قسم کی تحقیق کے لئے طلبہ ’’قصص القرآن‘‘ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، ’’ارض القرآن‘‘ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔