سورہ مریم سے پہلے اصحاب کہف کا واقعہ بیان ہوا۔ جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ چند آدمی ایک مشرک بادشاہ کے ڈر سے اپنا ایمان بچا کر ایک غار میں چلے گئے تھے اور قرآن پاک کے مطابق تین سو نو برس تک وہاں رہے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے نکل آئے تو خوراک حاصل کرنے کے لئے ایک آدمی کو شہر روانہ کیا۔ یوں ان کا راز کھل گیا۔ اب قرآن کے ان الفاظ پر غور کیجئے:
’’وکذالک اعشرنا علیہم لیعلموا ان وعدہ اﷲ حق وان الساعۃ لاریب فیہا (الکہف:۲۱)‘‘ {اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حالات سے مطلع کردیا۔ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں۔}
اب اگر کسی شخص کے حواس معطل نہ ہوں۔ تو ذرا سوچئے کہ اصحاب کہف صدیاں گزار کر پھر انسانی آبادی میں آسکتے ہیں جب کہ وہ عام آدمی تھے اور اپنی مرضی سے روپوش ہوئے تھے تو انہیں قیامت کی دلیل بنا کر لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے دوبارہ لایا جاسکتا ہے۔ تو جس ذات گرامی کا حال یہ ہو کہ اس کی ولادت بھی عام دستور کے خلاف، بن باپ، محض جبریل علیہ السلام کے نفخ روح سے ہوئی۔ کلمتہ اﷲ اور روح اﷲ (لقب کہئے یہ نام) اس کے ناموں میں شامل ہوئے۔ اگر اﷲ رب العزت انہیں ’’علم للساعۃ‘‘ بنا کر کسی محفوظ مقام میں رکھ لے۔یوں ’’اینما کنت‘‘ والی بات پوری ہو اور پھر نبی صادق الصدوقﷺ کے بیسیوں ارشادات عالیہ کے مطابق اس دنیا میں تشریف لے آئیں تو کون سی تعجب کی بات ہے؟ کیا ہم اس حقیقت کا صرف اس لئے انکار کردیں کہ کسی مراقی کی کھوپڑی اس کو تسلیم نہیں کرتی؟ پھر اﷲ کا دین تو نہ ہوا۔ موم کی ناک ہوئی چاہو تو لگا لو چاہو تو اتار کر رکھ دو۔
آئیے! اپنا عقیدہ محفوظ کرنے کے لئے چودھویں صدی ہجری کے ایک جلیل القدر محدث کا فرمان سن لیجئے۔