پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ اس بات سے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی شان نہیں ہے۔ کہ وہ اولاد اختیار کرے۔}
غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو عقیدۂ ولدیت کی تردید اتنی شدومد کے ساتھ، دوسری طرف یہ حقائق کہ:
۱… حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کی والدہ ماجدہ کی خلاف معمول تربیت اور پرورش کا انتظام۔
۲… حضرت بی بی مریم علیہا السلام کا خرق عادت کے طور پر حاملہ ہونا اور پھر بچے کی پیدائش۔
۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزانہ طور پر پنگھوڑے (جھولے) میں بولنا۔
۴… بعثت کے بعد حضرت کو عجیب وغریب نوعیت کے معجزات مثلاً احیائِ موتیٰ وغیرہ ملنا۔ جن کے نعرہ ’’قم باذن اﷲ‘‘ میں اﷲ نے یہ تاثیر رکھ دی تھی، اندازہ تو لگائیے! ان کا اپنا کیا حال ہوگا؟
۵… یہود کی سازش قتل سے آپ کو معجزانہ طور پر (Miraculously) آسمان کی طرف اٹھا لینا۔
۶… شیر خوارگی میں بولتے وقت یہ فرمانا کہ: ’’جعلنی مبارکا این ما کنت (مریم:۳۱)‘‘ {مجھ کو برکت والا بنا دیا میں جہاں کہیں بھی ہوں) جب کہ اس قسم کا جملہ اور کسی نبی کی زبان پر نہیں آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینی زندگی کے علاوہ کہیں اور بھی آپ کی رہائش ہونی تھی۔
۷… قیامت کے روز جب آپ سے پوچھا جائے گا کہ کیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ اﷲ کے علاوہ مجھے اور میری ماں کو بھی خدا مان لو؟ تو اس کے جواب میں آپ کا یہ کہنا: ’’وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم(المائدہ: ۱۱۷)‘‘ {میں ان پر مطلع رہا۔ جب تک ان میں رہا۔} غور کیجئے۔ یوں نہیں کہا: ’’ما حیّیّت‘‘ بلکہ یہ کہیں گے: ’’جب تک میں ان میں رہا۔‘‘ پھراس سے آگے یوں نہیں کہا: ’’فلما امتنی‘‘ بلکہ کہیں گے: ’’فلما توفیتنی‘‘ ان تمام حقائق پر غور کیجئے!