’’وقل الحمد ﷲ الذی لم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا (بنی اسرائیل: ۱۱۱)‘‘ {اور کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اسی اﷲ کے لئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مددگار ہے۔ اور اس کی خوب بڑائیاں بیان کیا کیجئے۔}
یہ آیت گویا اگلی سورت کے لئے تمہید ہے۔ اس کے بعد سورہ کہف آئی، اس کے مضامین پر غور کیجئے!
الف… قرآن۔ اﷲ کا کلام ہے۔ جو اس نے اپنے خاص بندے پر نازل فرمایا۔
ب… قرآن مجید میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے۔ اشارہ فرمایا گیا کہ نصاریٰ نے جس چیز کو دین بنا رکھا ہے۔ وہ سمجھ میں نہ آنے والی چیز ہے۔ عقیدہ ولدیت۔ جس پر دین مسیحی کی بنیاد ہے۔ یہ گورکھ دھندا ہے۔ یا اﷲ کا دین؟ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے نتیجے کو سوچ سوچ کر اﷲ کے محبوب ﷺ سراپا کرب واضطراب بنے رہتے تھے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
’’فلعلک باخع نفسک علی اثارہم ان لم یؤمنوا بہذا الحدیث اسفاً(الکہف: ۶)‘‘ {سو شاید آپؐ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون پر ایمان نہ لائیں تو غم سے اپنی جان دے دیں گے۔}
اﷲ کا دین تو دین قیم ہے۔ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق، نہ یہاں تین میں ایک کا چکر، نہ ایک میں تین کا۔
ج… اس کے بعد اصحاب کہف کا قصہ دور تک چلا گیا۔ اس سورت سے اس کی کیا مناسبت ہے؟ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اب آئیے سورہ مریم کی طرف! تو اس کے شروع میں دو نبیوں کی خارق عادت ولادت کے واقعات کسی قدر تفصیل سے آئے ہیں اور اس کا اختتام پھر عقیدہ ولدیت کی تردید پر ہوا اور نہایت زور دار الفاظ میں۔ ذرا ان الفاظ پر غور تو کیجئے!
’’وقالو اتخذو الرحمن ولدا۔ لقد جئتم شئیاً ادا۔ تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ہدا۔ ان دعوا للرحمن ولدا۔ وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا۔ (مریم: ۸۸تا۹۲)‘‘{اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اولاد اختیار کررکھی ہے۔ تم نے یہ ایسی سخت حرکت کی ہے کہ اس کے سبب کچھ بعید نہیں کہ آسمان