ج… ’’والذین یصدقون بیوم الدین، والذین ہم من عذاب ربہم مشفقون (المعارج: ۲۶،۲۷)‘‘ {اور جو قیامت کے دن کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔}
اس کے بالمقابل جو خدا فراموش انسان ہیں، ان کے دل ودماغ پر پردے آجاتے ہیں۔ وہ غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ ’’لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیوۃ الدنیا واطمانوا بہا (یونس:۷)‘‘ {جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے اور وہ دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں} کا مصداق بنے ہوتے ہیں۔ نہ انفرادی زندگی میں خوف خدا اور آخرت کا جواب دہی کا احساس ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں۔
رسول اﷲﷺ، صحابہ کرامؓ کو ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور خود قرآن پاک تہدیدات سے بھرا ہوا ہے۔ قرآنی انداز بیان اور فقہ کی کتابوں کے انداز تحریر میں یہی تو فرق ہے کہ کتابوں میں آپ کو مسائل کی تفصیل ملے گی۔ لیکن کرو گے تو اجر کیا ملے گا؟ خلاف ورزی کرو گے تو آخرت کا کتنا وبال ہوگا؟ اس کا جواب وہاں نہیں ملے گا؟ اس کے برخلاف قرآن مجید میں فقہی مسائل پر تھوڑے الفاظ آپ کو ملیں گے۔ لیکن تنبیہہ وتہدید زیادہ ہوگی۔ مثال کے طور پر آپ سورۂ طلاق کو پڑھ لیجئے! سورہ مطففین میں حقوق وفرائض کا ذکر ہوا تو ساتھ ہی فرمایا گیا:
’’الا یظن اولٰئک انہم مبعوثون، لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العالمین (المطففّین: ۴ تا۶)‘‘ {کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ جس دن تمام آدمی رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔}
تو مسائل کے ساتھ جزا وسزا اور آخرت کا تصور بہت ضروری ہے۔
اب ہر وہ کوشش جو مسلمانوں میں فکر آخرت پیدا کرے، وہ محمود اور قابل تعریف ہے اور ہر وہ سعی جس سے فکر آخرت میں کمی آئے۔ وہ مذموم ہے۔ تو خروج دجال، نزول سیدنا مسیح علیہ السلام، وغیرہ ان امور میں سے ہیں۔ جن کا تعلق فناء عالم سے ہے۔ اس لئے ’’بالآخرۃ ہم یوقنون (البقرہ:۴)‘‘ {اور آخرت پر وہ لوگ یقین رکھتے ہیں۔} کی تکمیل کے لئے ضروری