لوگ ہمارا ساتھ دیں تو ٹھیک ہے۔ ورنہ ہم آپ کی جلسہ گاہ کو چھوڑ دیں گے۔ ہمیں جہاں جگہ مل جائے گی۔ ہم نے ان عنوانات پر تقریریں کرنی ہیں۔ آپ لوگ چاہیں تو ہم کل کا خرچ بھی آپ کو ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کچھ دیر لے دے کے بعد ان لوگوں نے ہم سے اتفاق کرلیا۔ اس کے بعد ہمارے مبلغین نے ختم نبوت وغیرہ پر تقریریں کیں اور میں نے حیات ونزول مسیح علیہ السلام کے موضوع پر تقریر کی۔ بحمد اﷲ جلسہ بڑا کامیاب رہا۔ (غالباً یہ بھی فرمایا تھا کہ کئی مرزائی تائب ہوئے)
یہ بزرگ کون ہیں؟ یہ ہیں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ!
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف حضرت مولانا محمد علی قدس سرہ یا مبلغین ختم نبوت ہی کی ذمہ داری تھی؟ اغیار کو توڑ چھوڑئیے۔ اگر علم وفضل کے دعویدار، سیدنا مسیح علیہ السلام کے رفع الی السماء تک پہنچ کر آپ ؑ کے نزول کا انکار کردیں تو کیا کتاب وسنت کے ماننے والے خاموش رہیں؟ یہ آگے تفصیل سے بتائوں گا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ بہر حال مسئلہ زیر نظر پر ایک طالب علم کی طرف سے ماحضر قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
ایک توجہ طلب سوال:
یہاں قدرتی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ چلئے مان لیا، سیدنا عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ ہوتے رہیں۔ ہمیں اس پر زیادہ زور دینے اور قیمتی لمحات زندگی صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب مختصر الفاظ میں یوں دیا جاسکتا ہے کہ عقائد اور اعمال میں گہرا ربط ہے۔ صحیح عقائد کے ساتھ صحیح اعمال اور غلط عقائد کے ساتھ برے اعمال کا صادر ہونا یقینی ہے۔
دنیا میں دو قسم کے آدمی بستے ہیں۔ اور ہر ایک کی جداگانہ خصوصیات ہیں۔ ایک طبقہ خدا ترس انسانوں کا ہے۔ دوسرا: خدا فراموش، خدا ترس انسانوں کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے تحسین وستائش کے انداز میں کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
الف… ’’وہم من الساعۃ مشفقون(الانبیائ:۴۹)‘‘ {اور وہ لوگ قیامت سے ڈرتے ہیں۔}
ب… ’’والذین آمنوا مشفقون منہا ویعلمون انہا الحق(الشوریٰ: ۱۸)‘‘ {اور جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں، اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ برحق ہیں۔}