بعد واجبات اور فرائض سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر ناقابل تردید دلائل کے ہوتے ہوئے۔ ایک شخص نزول مسیح کا انکار کرسکتا ہے۔ توکل کو وہ سلسلۂ نبوت کا بھی انکار کرسکتا ہے۔ تاکہ کسی بدبخت کے لئے جھوٹے دعویٰ نبوت کی گنجائش باقی نہ رہے۔
ایک واقعہ
۱۹۶۰ء کی دہائی کا واقعہ ہے کہ ایک بزرگ، جنہیں مسئلہ ختم نبوت سے تعلق ہی نہیں عشق تھا۔ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور مشن کی حیثیت سے یہ ان کا شب وروز کا مشغلہ تھا۔ انہوں نے ایک محفل میں بیان فرمایا کہ: ہماری جماعت کے مبلغین کو ایک مرتبہ پنجاب کے کسی دیہاتی علاقہ میں بلایا گیا۔ اس چک میں صرف دو گھر مسلمانوں کے تھے۔ باقی مرزائیوں کے۔ مرزائیوں نے جلسے میں رکاوٹ پیدا کی۔ جس کی بناء پر داعیان نے ہم لوگوں سے کہا کہ یہ صورتحال ہے۔ اس لئے مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ فی الحال علماء کرام دینی موضوعات پر وعظ کہیں۔ لیکن مرزائیت کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔ ان کے اصرار پر ہم لوگوں نے کہہ دیا کہ: ٹھیک ہے! چنانچہ دن بھر جلسہ کی کارروائی جاری رہی۔ رات کو ہم لوگ سو گئے تو میں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب کا واقعہ اس طرح سے ہے کہ:
ایک کھلا میدان ہے جس میں میں کھڑا ہوں۔ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب میرے سامنے آسمان سے اترے ہیں۔ میں نے پوچھاکہ: جناب کا اسم گرامی؟ فرمایا: عیسیٰ ابن مریم! اب میں وہ علامات ملانے لگا جو احادیث میں آپ کے حلیہ مبارک کے بارے میں آئی ہیں۔ علامات تو وہ ملتی چلی گئیں۔ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ قبل از وقت نہیں تشریف لے آئے؟ ابھی تو دجال بھی نہیں آیا! فرمایا: جو لوگ مجھے مردہ کہتے ہیں ان کو تو چھوڑو! وہ لوگ مجھے زندہ مانتے ہیںاگر وہ بھی میرا زندہ ہونا بیان نہ کریں، تو پھر اپنی زندگی کا ثبوت دینے کے لئے خود نہ آئوں تو اور کیا ہو؟اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی میرے دل میں خوشی اور ندامت کے ملے جلے جذبات تھے۔خوشی اس بات کی کہ مجھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور ندامت اس بات پر کہ ہم نے اپنے مشن کو کیوں چھوڑا؟‘‘
صبح اٹھ کر میں نے مسلمان داعیان کو بلایا اور ان سے کہا کہ : کل آپ لوگوں کے کہنے کے مطابق جلسہ کی کارروائی ہوتی رہی۔ مگر ہم مجبور ہیں۔ آج ہم نے مرزائیت پر بولنا ہے۔ آپ