پھر اس آخرت کے متعدد نام اور بھی قرآن پاک میں آئے ہیں: ’’یوم القیامۃ، یوم الدین، یوم الحساب، یوم النشور، الساعۃ، القارعۃ، الحاقۃ، الواقعۃ، خافضۃ، رافعۃ‘‘ وغیرہ۔
توحید اور رسالت کے ساتھ قیامت بھی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اب یہ دنیا کیوں کر ختم ہوگی؟ قیامت سے پہلے کیا کیا حالات اور واقعات پیش آئیں گے۔ کیا کیا تبدیلیاں رو نما ہوں گی؟ اس دنیا کے لئے فضا کیونکر ہموار ہوگی پھر آگے کیا ہوگا؟ یہ سوالات ایسے نہیں تھے کہ اﷲ کے آخری نبی اور رسولﷺ اس دنیا سے تشریف لے جاتے اور اپنی امت کو اس انقلاب عظیم کے بارے میں کچھ بتا کر نہ جاتے۔ باپ گھر سے باہر جاتا ہے تو بیٹے کو ہدایات دے کر جاتا ہے۔ کیا رئوف ورحیم پیغمبر ﷺ امت کو بتائے بغیر تشریف لے جاتے؟ (حاشا وکلا)
آج کی پڑھی لکھی دنیا‘ جس دور کو صنعتی انقلاب کا زمانہ یا Scientific Ages کا نام دیتی ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ اسلامی معتقدات کو تقویت پہنچاتا، الٹا وہ حق سے دور ہوتا چلا گیا۔ قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے کہ: ’’وکانوا مستبصرین‘‘ {ویسے تو وہ لوگ بڑے روشن دماغ تھے۔} اپنی تمام تر روشن دماغی کے باوجود ان کا حال یہ ہے کہ:
’’یعلمون ظاہراً من الحیوۃ الدنیا وہم عن الآخرۃ ہم غافلون (الروم:۷)‘‘ {یہ لوگ صرف دنیوی زندگانی کے ظاہر کو جانتے ہیں، اور آخرت سے بے خبر ہیں۔}
لیکن مسلمان، جو قرآن کو اﷲ کی کتاب مانتا ہے اور محمد رسول اﷲﷺ کو اﷲ کا آخری رسول، وہ بہرحال مذکورہ بالا بنیادی عقائد کو مانتا اور ان کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اس عقیدہ قیامت یا آخرت کا ایک جزو ہے۔ ’’نزول سیدنا مسیح ابن مریم‘‘ علیہ وعلیٰ امہ السلام۔ یہ عقیدہ کتاب وسنت پر ایمان رکھنے کے باوجود امت مسلمہ کے اس طے شدہ عقیدہ کا انکار کرے۔ مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دور میں کچھ لوگ تواز راہ بدنیتی اس کا انکار کررہے ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جو ہمارے نزدیک دین کے نادان دوست کا کردار ادا کررہے ہیں وہ یوں سوچتے ہیں کہ اسلامی عقائد کی فہرست میں نہ نزول مسیح کا عقیدہ رہے گا نہ کسی کو مسیح موعود بننے کا موقع ملے گا۔ آپ نے سن رکھا ہوگا کہ آدمی مستحبات کو چھوڑ کر سنن کا تارک ہوجاتا ہے۔ اور سنن کو چھوڑنے کے