پائے جاتے اور مجدد وہ شخص ہوتا ہے جس کی علمیت وفاضلیت ومحدثیت پر علمائے وقت کا اتفاق ہو اور اس کے ناقد حدیث ہونے کو خود تسلیم کرلیں اور مرزا قادیانی کو یہ قابلیت کہاں نصیب ہوئی؟ دیکھو حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب فاضل اجل، علامہ بے بدل، وابو البیان وغیرہ احباب احناف نے کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ کی کئی اغلاط پر نوٹ دے کر مرزا قادیانی کی علمی لیاقت کا نمونہ اظہار کیا ہے۔ جس کا جواب اب تک کسی مرزا قادیانی سے نہیں بن سکا اور خادم شریعت بھی بطور مشتے نمونہ ازخروارے مرزاقادیانی کی علمیت پر روشنی ڈال دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی نے کہیں تو مسلمانوں کی کتابوں سے عبارتوں کی چوری کی اور کہیں بے ربط عبارت بنائی اور کہیں تحریف معنوی کی جس پر ادنیٰ ادنیٰ طالب علم بھی انہیں اڑا رہے ہیں۔
دیکھئے غور سے دیکھئے صفحہ اول: وانی سمیتہ اعجاز المسیح وقد طبع فی مطبع ضیاء الاسلام فی سبعین یوما وکان من الہجرۃ
(سن ۱۳۱۸ ومن شہر نصاری ۲۰ فروری ۱۹۰۱ئ، اعجاز المسیح ص۱، خزائن ج۱۸ ص۱)
غلطی نمبر اول طبع کی ضمیر راجع بجانب قصیدہ ہے اور یہ مؤنث ہے لہٰذا طبعت ہونا چاہئے تھا اور باقی تمام عبارت بالکل ربط وخلاف محاورہ اہل عرب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی صاحبان کے نزدیک ستر دن کا بھی مہینہ ہوتا ہوگا اور ضلع گورداسپور کی بجائے غورداسفور ہونا چاہئے تھا کیونکہ زبان عرب میں گاف، پ استعمال میں نہیں آتے اور ذرا ص۲ کو ملاحظہ فرمائیے کہ:
(ست غاب صدرہ او کلیل اقل بدرہ) یہ عبارت حریری کے ص۱۲۴ سے لی گئی ہے اور ص۳ میں ہے۔ ’’من کل نوع الجناح‘‘ (اعجاز المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۵) اس جگہ نوع للجناح ہونا چاہئے تھا کیونکہ کلمہ کل معرفہ پر احاطہ اجزاء کا افادہ دیتا ہے۔ جو کہ اس مقام پر مقصود نہیں (کل امرہم علی التقویٰ(ایضاً)) اس جگہ بھی (امرہم) ہونا چاہئے تھا اور ص۷ پر مرزا قادیانی نے مقامات حریری سے خوب چوری کی ہے۔ وافرق بین روض القدس وخضراء الدمن کالربیع الذی یمطرفی ابانہ۔ اور اعجاز المسیح ص۷، خزائن ج۱۸ ص۹ اور دوسری جگہ لکھا ہے۔ ’’این الخفاء فتحوا العین ایہا العقلائ‘‘ (اعجاز المسیح ص۸، خزائن ج۱۸ ص۱۰) اس جگہ فافتحوا پر فاکا لانا خلاف محاورہ عرب ہے۔ قالو مفتری (اعجاز المسیح ص۹ خزائن ج۱۸ ص۱۱) یہاں پر صرف مفتر چاہئے تھااور ولما جائہم امام بما لا تھوی انفسہم (اعجاز المسیح ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۱۵) یہاں پر مرزا قادیانی نے بتغیر لفظ امام قرآن مجید سے چوری کی ہے۔