شہ سرخی کے بعد اب تفصیلات کا بیان شروع ہوا۔ قرآن کریم نے ببانگ دہل لاریب فیہ کا اعلان کرنے کے بعد ماننے یا نہ ماننے کے لحاظ سے تین گروہوں کا ذکر کیا: متقین، کفار، منافقین۔ پھر متقین کے پانچ اوصاف کا ذکر کیا۔ ان میں سے پہلے نمبر پر ایمان بالغیب ہے۔ اس الغیب میں کیا کیا شامل ہے؟ نہ انسانی عقل کی وہاں تک رسائی ہے۔ نہ حواس کی۔ طلبہ ذرا تفسیروں کو دیکھیں۔ علمائے امت اس کا معنی لکھتے ہیں: ’’ما غاب عن الحس والعقل‘‘{جو حس وعقل سے ماورأ ہے} پھر انسانی عقل نے ترقی کرتے کرتے معاملہ کہیں سے کہیں تک پہنچا دیا۔ جو پہلے ’’الغیب‘‘ تھا وہ اب ’’الشہادۃ‘‘ کے کھاتے میں آگیا ہے۔ تو ’’الغیب‘‘ میں کیا کچھ ہوگا؟ صدیوں پیشتر انسان کی نگاہ صرف نیچے کی زمین، اوپر کی نیلگوں چھت (آسمان)، سورج، چاند اور تاروں تک پہنچتی تھی۔ نہ اس نے کبھی نظام شمسی کا لفظ سنا تھا۔ نہ اس کی تفصیلات اور جزئیات سے واقف تھا۔ آگے بڑھا تو نظام شمسی (جو ایک مرکز یعنی سورج، اس کے ساتھ نو سیاروں اور بتیس چاندوں پر مشتمل ہے) اس کی کہانی سنانے لگا اور آگے بڑھا تو کہ کہکشائوں کی ایک دنیا کی داستان سنانے لگا۔ کہکشاں کے بارے میں وہ یہاں تک کہہ گزرا کہ ایک کہکشاں میں ہزاروں نظام شمسی شامل ہیں اور ایسی کروڑوں کہکشائیں ہیں۔ مگر اﷲ کا قرآن اب بھی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ’’وما یعلم جنود ربک الاہو(المدثر: ۳۱)‘‘{اور تمہارے رب کے لشکروں کو بجز رب کے کوئی نہیں جانتا۔} تین چار انچ مربع کھوپڑی والا انسان کیا سمجھے قدرت کے بھیدوں اور کائنات کی رموز کو…! خدا کی باتیں خدا ہی جانے!
ہم قرآن پاک کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھے تو ہمیں یہ آیت نظر آئی: ’’الذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک(البقرہ:۴)‘‘ {وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپﷺ کی طرف اتار دی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپﷺ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں}
اس ابدی اور سرمدی کتاب ہدایت نے وضاحت فرما دی ہے کہ وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو قرآن پاک کے نام سے براہ راست مخاطب محمد مصطفیﷺ پر نازل ہوئی۔ اور وہ ایک جو آپﷺ سے پہلے نازل ہوئی۔ قارئین یاد رکھیں گے کہ وحی کی یہی دو قسمیں ہیں، اگر کوئی شخص ان دو کے علاوہ وحی کی تیسری قسم مانتا ہے تو وہ جادہ مستقیمہ سے منحرف ہے۔
اس کے بعد ہمیں متقین کے اوصاف میں یہ الفاظ ملے۔ ’’وبالآخرۃ ہم یوقنون‘‘