چوں نۂٖ از خود آگہ اے بے شعور!
پس نباید بر چنیں علمت غرور
یوں جاہلیت قدیمہ کا انسان، شرک کی بھول بھلیاں میں پھنس کر صراط مستقیم سے دور رہ گیا اور جاہلیت جدیدہ کا انسان غفلت کا شکار ہوکر خدا فراموشی اور خدا بے زاری میں مبتلا ہوگیا۔ افراط وتفریط کا یہ سلسلہ دین کے ہر شعبہ میں کار فرما نظر آتا ہے۔ توحید کے بعد رسالت کا مسئلہ سامنے آیا تو کسی کی نگاہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی ’’بشریت‘‘ تک پہنچ کر رک گئی اور وہ کہہ اٹھا: ’’ابشراً منا واحدا نتبعہ(القمر:۲۴)‘‘ {کیا ہم ایسے شخص کا اتباع کریں گے جو ہمارے جنس کا آدمی ہے اور اکیلا ہے} اور ’’انؤمن لبشرین مثلنا(المومنون: ۴۷)‘‘ {کیا ہم دو ایسے شخصوں پر جو ہماری طرح انسان ہیں ایمان لے آئیں؟} اور کسی نے ان کی رسالت ونبوت کو ملحوظ رکھا تو بشریت کا مقام پست سمجھتے ہوئے ان کی بشریت کا انکار کردیا۔
افراط وتفریط کی وجہ سے ظلوم وجہول انسان کی زیادتیوں کی داستان طویل بھی ہے۔ حیرت انگیز اور المناک بھی! اسی سلسلہ کی ایک کڑی آج کی فرصت میں ہمارا موضوع سخن ہے۔ جس کے لئے ہم قارئین سے چند لمحات زندگی صرف کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
آغاز سخن
اگر آپ نے قرآن مجید پڑھا ہوا ہے اور آپ کی خوش نصیبی نے اس کے معانی، مطالب کو بھی کسی حد تک سمجھنا آسان کردیا ہے۔ تو آپ ذرا غور کیجئے! سورۂ فاتحہ تو پورے قرآن کریم کا متن ہے۔ اس کے نصف اول میں اﷲ تعالیٰ کی حمدوثناء ہے اور نصف آخر میں دعا ہے کہ:
’’اے اﷲ ہم تجھ ہی سے عبادت(اور ہر نیکی) کی توفیق مانگتے ہیں۔ تو ہمیں اس راستے پر چلا۔ جو سیدھا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا۔ ان لوگوں کے راستے پر نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور ان لوگوں کا جو گمراہ ہوکر رہ گئے۔‘‘
آگے مفسرین حضرات نے بتایا کہ ’’مغضوب علیہم‘‘ سے مراد یہود ہیں اور ’’الضالّین‘‘ سے مراد نصاریٰ ہیں۔
سورۂ فاتحہ سے آگے تیس پاروں میں تقسیم شدہ اﷲ کا قرآن ہے جو اپنے زمانۂ نزول کے بعد قیامت تک، انسانیت کی فلاح وہدایت کا نصاب بن کر نازل ہوا۔ بلفظ دیگر یوں سمجھئے کہ