M
ابن آدم عجب بوقلموں ہے۔ اگر ماننے پر آگیا تو شجروحجر کے سامنے جبینِ نیاز جھکادی۔ ایک ایک پجاری نے کئی کئی معبود بنا لئے۔ برصغیر پاک وہند کی آبادی جب تین کروڑ تھی۔ اس وقت اس نے پینتیس کروڑ معبود تراش رکھے تھے۔ کبھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر سورج کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے۔ کبھی پانی کے آگے ماتھا ٹیک دیا۔ شرف انسانیت کو یہاں تک پامال کیا کہ حشرات الارض تک کو ’’الٰہ‘‘ مان لیا۔ بالکل سچ فرمایا رب العزت نے:
’’ومن یشرک باﷲ فکاَنّما خر من السماء فتخطفہ الطیر او تہوی بہ الریح فی مکان سحیق (الحج:۳۱)‘‘ {جو شخص اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا۔ اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا ہوا اسے لے جا کر دور کسی جگہ پھینک دیتی ہے۔}
اور نہ ماننے پر آیا تو اسے ساری کائنات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ’’خالق‘‘ کا پتہ نہ چلا۔ نہ اپنے اندر جھانک کر کبھی اس نے دیکھا۔ نہ آفاق پر اس نے نظر ڈالی۔ اس کی ترک تازیوں نے اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر اجرام فلکی تک پہنچا دیا۔ اس نے نوری سال کا پیمانہ ایجاد کرکے کروں کا باہمی فاصلہ ناپ لیا۔ اس نے فنا ہو جانے والی مخلوق پر ریسرچ میں عمر کھپا دی۔ رصد گاہوں میں بیٹھ کر ستاروں اور سیاروں کا مطالعہ کرتا رہا۔ مگر مادی دنیا سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اﷲ کے رسولوں نے اسے سمجھایا: ’’افی اﷲ شک فاطر السموت والارض(ابراہیم:۱۰)‘‘ {کیا اﷲ تعالیٰ کے بارے میں شک ہے جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے} مگر اس نے کان نہ دھرا۔ اس کی عقل پر پردے پڑے رہے۔ اس کی آنکھوں پر اندھیرا چھایا رہا۔
کیونکہ ’’لہم قلوب لا یفقہون بہا‘ ولہم اعین لا یبصرون بہا، ولہم اذان لا یسمعون بہا(الاعراف: ۱۷۹)‘‘ {جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔}
عارف رومیؒ فرماتے ہیں:
فلسفی گشتی ومرا آگہ نیستی
خود کجا و از کجا وکیستی