کے مقابلہ میں کچھ نہیں ۔ جماعت کا مقابلہ جماعت سے ہونا چاہئے۔ ۱۹۲۵ء میں ہم نے سوچا حضورﷺ کو مٹانے کا نظام بن رہا ہے۔ تب سے جماعت بنی اور اس کا شعبہ تبلیغ مقرر ہوا جس کا تعلق ملک کے سیاسی معاملات سے نہیں تھا۔ اسلام کی بنیاد مسئلہ ختم نبوت پر ہے۔ جب حضورﷺ نے یہ فرمایا: ’’لا نبی بعدی ولا رسول بعدی ولا امۃ بعدکم‘‘ شروع سے لے کر آج تک اور آج سے لے کر حشر کے گرم ہونے تک کوئی نہیں جو یہ عقیدہ بد رکھے۔ ہم اس کو لے کر بیٹھے ہیں۔ اس کا کسی ملکی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔بعض لوگوں کو شک ہے کہ حکومت کے سامنے جھک گئے جب تم انگریز حکومت کے سامنے جھکے دبے رہے تو ہم اگر مسلمان حکومت کے سامنے جھک گئے تو کیا ہوا۔ ارے میرے اپنے ساتھ چھوڑ گئے۔ کسی کو کیا کہوں؟ آپ کسی پارٹی میں چاہے جائیں لیکن ادھر بھی توجہ رکھیں یہ حضورﷺ کے نام کا مدرسہ ہے۔ اگر آپ کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی تو ظفر اﷲ ہی سے سمجھ لو وہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی ممبری سے لے کر وزارت خارجہ پاکستان تک جہاں جہاں رہے۔ لیکن کبھی قادیان کو نہیں چھوڑا ۔
مولوی محمد اسحاق ایبٹ آبادی نے جب ظفر اﷲ سے پوچھا کہ تم نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہ پڑھا تو اس نے کہا کہ میں اسے مسلمان نہیں سمجھتا تھا۔ تم مجھے کافر حکومت کا مسلمان ملازم یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر سمجھ لو آپ کو اپنی سرکار کا ملازم ہوکر تحفظ ختم نبوت سے شرم کیوں آتی ہے۔ سو دفعہ جائو عوامی لیگ میں یا مسلم لیگ میں یا کہیں اور تمہاری جوانیوں کا صدقہ تحفظ ختم نبوت کی طرف بھی نگاہ کرم ڈالتے رہئے۔
مرزا بشیر نے کبھی الیکشن نہیں لڑا۔ لیکن کسی مرزائی نے انہیں نہیں چھوڑا چھ لاکھ روپیہ کی کرنسی لے کر ولایت چلا گیا فاروقی جو اس وقت یونٹ کے چیف سیکرٹری ہیں۔ سندھ کے چیف سیکرٹری تھے میں سندھ گیا اور جہاں گیا نوٹس میرے پیچھے ہوتے تھے۔ کبھی کسی کی حویلی تقریر کرنا پڑی اور کبھی مسجد میں، مسلم لیگ کی حکومت کا مرزائی نوکر۔ عطاء اﷲ کے ختم نبوت کے جلسوں پر پابندی عائد کررہا ہے۔ لیکن ربوے کی یاد نہیں چھوڑتا مرزا بشیر الدین تو اپنے ابا کی نبوت منوا رہا ہے۔ ختم نبوت سانجھی ہے۔ میرے ابا کی نہیں۔ ملکی معاملات میں ہمارا کوئی لین دین نہیں۔ میری دعا ہے کہ مجلس تحفظ ختم نبوت قیامت تک رہے۔ کفر کا یہ پروگرام کوئی آج کا نہیں ہے۔ جب سے حضورﷺ تشریف لائے تب سے مسیلمہ کذاب پیدا ہونے شروع ہوئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سات سو حافظ قرآن صحابہ کو ختم نبوت کی خاطر شہید کرادیا۔ کہتے ہیں نتیجہ نہیں نکلا۔ ارے نتیجہ