جاں نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی وغیرہ، بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے۱؎۔ دست بردار ہو جائیں… یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے۔ جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان نہیں پیش کر سکتا اور میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مارکرنا اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے ہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تو سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں بدامنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہو۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے۔ یک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہوگئے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۶۰تا۳۶۳، خزائن ج۱۵ ص۴۸۸تا۴۹۳)
اس حوالے کے بعد ہم مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
قلم ایں جارسید وسربکشت
۱؎ اچھا؟ جہاد کا قرآن کریم میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے؟ مرزاقادیانی کی ’’علمی دیانت‘‘ داد دینے کے قابل نہیں ہے؟