مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کے لئے جو پانچ ارکان تجویز کئے ان میں تیسرا رکن جہاد کو حرام سمجھنا قرار دیا۔ (کتاب البریہ ص۳۴۸، خزائن ج۱۳ ص ایضاً)
الغرض مرزاقادیانی نے انگریزی حکومت کی تائید اور جہاد کی ممانعت میں ایڑی چوٹی کا زور خرچ کر دیا۔ چنانچہ وہ نہایت فخریہ انداز میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
۱۸۹۸ء میں مرزاقادیانی نے نواب لیفٹیننٹ گورنر کو جو درخواست دی تھی۔ اس میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقدین کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار ہے۔‘‘
اسی درخواست میں مرزاقادیانی آگے جاکر لکھتے ہیں۔ ’’صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار… اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۳۴۷تا۳۵۰، خزائن ج۱۳ ص ایضاً، تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
مشتے نمونہ ازخروار ہم نے چند حوالے پیش کر دئیے ہیں۔ ناظرین ان سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ مرزائیت کا خمیر کن اجزاء سے تیار ہوا اور اس کا پتلا کیونکر وجود میں آیا۔