ادھر انگریز کو اپنے سلطنت کے استحکام کے لئے موزؤں آدمی کی تلاش تھی جو پیر۱؎ی مریدی کا مشغلہ رکھتا ہو۔ معتقدین کی ایک جماعت اس کے جلو میں ہو اور انگریز کا پکا وفادار اور خیرخواہ ہو۔ ادھر اسے مرزاقادیانی کی خدمات کا پاس خاطر تھا تو اسے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے پھر یہی ’’ذات گرامی‘‘ موزوں نظر آئی۔ چنانچہ مرزائیت کا پودا کاشت ہوا اور پھر انگریز کے نہاں خانہ سازش میں تیار شدہ پلان کو یوں عمل جامہ پہنایا گیا۔
مرزاقادیانی نے ترتیب وارد مہدی، مجدد اور مسیح موعود کے دعوؤں کے بعد اعلان کیا: ’’میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں۔‘‘ (تحفۃ الندوہ ص۳، خزائن ج۱۹ ص۹۵)
کچھ عرصے کے بعد مرزاقادیانی نے ایک قدم آگے بڑھایا اور ظلی بروزی کی اصطلاحوں سے بے نیاز ہوکر صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
نبوت کا دعویٰ تو دراصل تمہید تھا۔ اصل مقصود جذبہ جہاد کو ختم کرنا تھا۔ تاکہ انگریزی حکومت کو پائیداری اور استحکام نصیب ہو۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے اعلان کیا: ’’بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے۔ کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے سو میرا مذہب جس کو باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
صرف یہی نہیں کہ مرزاقادیانی نے آئندہ کے لئے جہاد کو حرام قرار دیا۔ بلکہ ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں جن لوگوں نے حصہ لیا تھا انہیں بھی مرزاقادیانی نے چور، قزاق اور حرامی قرار دیا۔ (ازالہ اوہام ص۷۲۸، خزائن ج۳ ص۴۹۰)
۱؎ مرزاقادیانی نے لیفٹیننٹ گورنر کے نام اپنے اور اپنی جماعت کے بارے میں جو درخواست دی تھی۔ اس میں اپنا پیشوا اور امام اور پیر ہونا بیان کرتا ہیں۔
(کتاب البریہ ص۳۳۷، خزائن ج۱۳ ص ایضاً)