میں تراخی یا مہلت نہیں ہوا کرتی صرف ترتیب ہوتی ہے۔ یعنی حمل ترتیب کے لحاظ سے تو اس بشارت وسوال وجواب کے بعد ہوا لیکن یہ متصل ہی ہوا، اس میں کوئی زیادہ دیر یا مہلت نہ تھی، اگر نکاح کے بعد یہ قصہ ہوتا تو اس میں کافی مدت درمیان میں حائل ہوتی۔ اس پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ حمل جبرئیل امین علیہ السلام کی پھونک سے جو انہوں نے مریم علیہا السلام کی جیب (گریبان) میں دی تھی ہوا تھا۔ جیسا کہ تفاسیر کی روایات میں آتا ہے اور قرآن کریم میں سورہ انبیاء میں تو اس طرح آتا ہے۔
’’والتی احصنت فرجہا فنفخنا فیہا من روحنا (الانبیائ:۹۱)‘‘ {اور وہ پاک دامن عورت جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی پھر ہم نے اپنی روح سے ان کے اندر پھونکا۔}
یعنی اور جس نے پاک دامنی اختیار کی اس میں ہم نے اپنی روح پھونکی، اس آیت میں فیہا میں جو ضمیر (ہا) ہے یہ مریم علیہا السلام کی طرف لوٹتا ہے۔ لیکن اس طرح نفخ روح تو سب مولودوں میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس میں مریم علیہا السلام کی کوئی خصوصیت نہیں لیکن سورہ التحریم میں یہ آیت اس طرح ہے:
’’ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجہا فنفخنا فیہ من روحنا (التحریم:۱۲)‘‘ {اور مریم بنت عمران کی بھی (مثال ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔}
یہاں (فیہ) کا ضمیر جیب کی طرف لوٹتا ہے اور جیب سے مراد گریبان ہے۔ احصان الجیب، کنایہ ہے پاک دامنی سے یعنی ایسی پاک باز عورت کہ اس نے اپنے گریبان تک بھی کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیا تھا۔بہرحال تو پھر ہم نے اس مریم کے گریبان میں اپنی روح پھونکی۔ یہ آیت کریمہ واضح کردیتی ہے کہ یہ تصرف (روح پھونکنا) جبرئیل امین علیہ السلام کی جانب سے تھا۔ کیونکہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ خود کسی میں پھونک مارنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ایسی باتوں سے پاک ہے۔ ہاں نفخ کی نسبت اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف اس لئے ہے کہ جبرائیل امین نے یہ پھونک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہی ماری تھی اور اس کے بہت سے امثلہ ہیں مثلا: سورہ ذاریات: ۳۲،۳۳ میں ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے آئے ہوئے فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے تو انہوں نے جواب دیا: