مولانا عبدالجلیل صاحب امام مسجد عطر شیشہ
غلام حیدر صاحب منشی والا
مولانا عبداللطیف صاحب پھگلہ
عبدالرحیم صاحب
ہمارا عقیدہ ہے کہ نبوت حضرت نبی کریمﷺ پر ختم ہوگئی آپ کے بعد جو نئی نبوت کا دعویٰ کرے وہ خارج از اسلام ہے اور ہمارا عقیدہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت آسمان سے اتریں گے اور ہمارے فریق مخالف کا عقیدہ ہے کہ مرزا قادیانی نبی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمارا عقیدہ درست اور ٹھیک ہے اور مخالف کہتا ہے کہ ہمارا ٹھیک ہے۔ آج ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ دلائل کی دنیا سے آگے ملیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالی میں سب مل کر نہایت عاجزی اور تضرع اخلاص سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم دو فریق سے جو باطل پر ہے اپنی طرف سے کوئی عذاب بصورت ہلاکت وغیرہ ایک سال کے اندر واقع ہو، نازل فرمائے۔
چنانچہ تمام لوگو نے ننگے سر ہوکر دعا شروع کردی اور آمین آمین کی آواز بلند ہوتی رہی۔ تقریباً ۲۰ منٹ تک دعا ہوتی رہی۔ دعا کے دوران میں ہی ایک مرزائی غلام حیدر غشی سے مجمع میں گر پڑا۔ دوسرے مرزائی نے اس کو ہوش میں لاکھڑا کیا۔ دوسرے مرزائی عبدالرحیم دکاندار نے کہا اے لوگوں میری تو دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جھوٹے کو پاگل کردے۔تمام لوگ اس کا تماشا دیکھیں کہ کون صادق ہے اور کون جھوٹا ہے اور پسماندگان اس سے عبرت پکڑیں۔
خدائی فیصلہ کی داستان سنیں: عبدالرحیم دکاندار ایک ماہ بعد پاگل ہوگیا۔ سر ننگے ہائی تباہی مچانی شروع کردی۔ ہمارے قریب پڑوس جنگل میں فوج پڑی تھی ان کے ہاں دفتروں اور کیمپ کے اندر بغیر اجازت شور مچانا شروع کردیا۔ انہوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ کافی دنوں تک جیل میں رہا۔ بیان کرتا ہے کہ میں نے مرزا قادیانی کو خواب میں سور کی شکل میں دیکھا جس کی وجہ سے میں مرزائی عقیدہ سے تائب ہوا۔
اب زندہ ہے اور تندرست ہے۔ ہمارے گائوں میں کریانہ کی دکان کرتا ہے۔ کبھی کبھی مرزائیوں کے خلاف تقریر بھی کرتا رہتا ہے اور بڑا نماز گزار ہے اور اذان دینے کا اس کو بہت شوق ہے اور اب دوسرے مرزائی غلام حیدر کا حال سنئے غلام حیدر کو مباہلہ کے ایک ماہ بعد مورخہ ۲۶؍مارچ۱۹۴۳ء بروز جمعہ کو سگے بھتیجوں نے معمولی بند کے جھگڑے کی بنا پر اسی دن قتل کردیا۔ کیونکہ قاتل اس کے بھتیجے تھے جن کو غلام حیدر کے ساتھ کوئی رنجش سابقہ نہ تھی۔ بلکہ غلام حیدر ان کی پرورش کرتا تھا۔