میں اکٹھے ہوکر نہایت تضرع اور عاجزی سے اللہ کے حضور میں دعا کریں کہ اے سمیع وبصیر اور قادر مطلق ہم میں سے جو باطل اور جھوٹ پر ہے اس پر اپنا غضب اور عذاب نازل فرما اور اسے سچے کی زندگی میں نیست ونابود کر تاکہ دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ جیسا کہ خود مرزا تحریر کرتا ہے:
’’مباہلہ کے معنی لغت عرب کی رو سے نیز شرعی اصطلاح کی رو سے یہ ہیں کہ دونوں فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خدا کی لعنت چاہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۲، ص۲۹، خزائن ج۱۷ ص۳۷۷)
مرزائیوں کے ساتھ مباہلہ
یہ مباہلہ ضلع ہزارہ میں پھگلہ کے مقام پر ہوا ہے جس کی روئیداد مولوی عبداللطیف صاحب یوں لکھتے ہیں کہ: ’’میں ۱۹۳۹ء میں تعلیم سے فارغ ہوکر تین چار سال مختلف مقامات پر ضلع ہوشیار پور وغیرہ میں درس وتدریس کرتا رہا ۱۹۴۲ء کو گھر پر آگیا ہمارے گائوں میں سید عبدالرحیم شاہ وغیرہ مرزائی تھے۔
وقتاً فوقتاً مختلف موضوع پر گفتگو ہوجایا کرتی تھی اور کئی دنوں تک جاری رہتی۔ اکثر بات چیت ان کی حیات وممات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہوا کرتی۔ بالآخر تنگ آکر انہوں نے دعوت مباہلہ دے دی میں نے بطیب خاطر اس کو قبول کیا اور مولانا کریم عبداللہ صاحب اور مولانا عبدالجلیل صاحب جو کہ پاس والی بستیوں میں مقیم تھے۔ شریک کرکے مورخہ ۲۶؍فروری۱۹۴۳ء بروز جمعہ مقرر کردی۔ اس تاریخ مقررہ پر علاقہ کے تمام لوگ تین چار گائوں کے جمع ہوگئے۔ یہ ایک تاریخی اجتماع تھا جس میں حق وباطل کو واضح کرنے کا یہ طریقہ عمل میں لایا جانے والا تھا۔ جو اس سے پہلے اس ملک میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ اجتماع بھی ایسی جگہ ہوا جو علاقہ میں مقدس اور محترم زیارت شہید غازی بابا کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اجتماع مباہلہ مورخہ ۲۶؍فروری ۱۹۴۳ء بروز جمعہ ہوا۔ اس موقع پر مولوی کریم عبداللہ صاحب نے جو ہمارے علاقہ کے جید علماء میں سے شمار کئے جاتے تھے۔ کھڑے ہوئے لوگوں کو اس اجتماع کی غرض اور مباہلہ کی حقیقت اور فریق مخالف کے نام جو مباہلہ میں شریک ہونے والے تھے اور اپنے مباہلین کے نام بھی گن کر بتائے نام مباہلین ہرودفریق:
نام مسلم
نام مرزائی
مولانا کریم عبداللہ صاحب امام مسجد سگدھار
سید عبدالرحیم شاہ صاحب