غلام حیدر کی اپنی اولاد وغیرہ نہ تھی۔ پولیس نے قاتلوں کو سیشن کے سپرد کردیا۔ لوگ بھاگے بھاگے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنے مباہلہ کا بیان شائع کردیں اور ایک درخواست سیشن جج کی عدالت میں پیش کردیں کہ مقتول سے ہمارا مباہلہ ہوا تھا۔ اس کا قتل ہمارے مباہلہ کی صداقت کیوجہ سے ہوا تاکہ قاتلوں کی سزا میں تخفیف ہو۔ میں نے ان کو جواب دیا کہ میں اپنی مشہوری اور لوگوں کی واہ واہ نہیں چاہتا۔ اگر خدا نے میرے مباہلہ کی صداقت کی وجہ سے غلام حیدر کو اس کے بھتیجوں سے قتل کرایا ہے تو وہ خدا عدالت سیشن میں بیان دیے اور مضمون بغیر شائع کئے ان کو رہا کردے گا۔ تم قدرت کا تماشا دیکھو۔
چنانچہ چند مہینوں کے بعد سیشن جج نے قاتلوں کو بغیر سزا اور جرم وغیرہ کے رہا کردیا اور قاتلوں کو ایک دن کی بھی سزا نہیں ہوئی۔ غلام حیدر کے قاتل اب تک زندہ ہیں اور اپنی زمینداری کرتے ہیں۔خدا کی قدرت اس سال ہم تینوں مولویوں کے سر میں بھی درد نہیں ہوا بلکہ پہلے سالوں سے اس سال صحت اچھی رہی تھی۔ حق وباطل ظاہر ہوگیا۔ لیکن بدبخت سیاہ قلب عبدالرحیم نے اپنی آنکھوں سے ان واقعات کو دیکھا لیکن اپنے عقیدہ سے تائب نہ ہوا۔
یہ بیان کرتا ہے کہ یہ شکست ہماری مباہلہ کی صداقت کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ بلکہ خلیفہ کے بغیر اجازت سے یہ مباہلہ کیا اس کی نافرمانی کی وجہ سے یہ سزا ہمیں ملی۔ مباہلہ کی صداقت کی وجہ سے نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اور اب کہتا رہتا ہوں کہ ہر مرزائی کو میرا چیلنج ہے کہ جس وقت اس کا جی چاہے خلیفہ سے اجازت لے کر میرے ساتھ مباہلہ کرسکتا ہے۔ سید عبدالرحیم کو ہر چند میں نے کہا کہ خلیفہ سے اجازت لے لو اور مباہلہ کے میدان میں آئو۔ لیکن وہ اس بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتا اور اب وہ مباہلہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ دل میں سچائی قبول کرچکا ہے۔ لیکن ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکاری ہے۔ مباہلہ کے بعد ان سے کلام کرنی۔ میں نے بہت کم کردی ہے جو شخص خدائی فیصلہ پر راضی نہ ہو اس سے درد سری کرنا فضول سمجھتا ہوں۔وما علینا الاالبلاغ!
الحمد ﷲ! مرزا قادیانی کے ڈھول کا پول حصہ اول دو رمضان المبارک سے ۱۴ رمضان المبارک ۱۳۸۹ء تک پایہ تکمیل کر پہنچ گیا۔ خدا تعالیٰ اس سے پڑھنے والوں کو نفع بخشے اور گمراہوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین برحمتک یا ارحم الراحمین!
دعا گو مؤلف!
فقیر ابو المنصور محمد صادق قادری چشتی رضوی فاضل جامعہ رضویہ جھنگ بازار لائل پور!