۴… ’’علی الہوا سیرہ‘‘ ہوا پر چلنا، محاورہ نہیں۔ ہوا میں اڑنا استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں بھی طیران فی الہوا آتا ہے۔ ہوا کی املاء بھی غلط ہے۔ اردو میں ہوا بدون الہمزہ لکھا جاتا ہے۔ لیکن عربی میں بالہمزہ ہوا آتا ہے۔
۵… ’’الطف وادق‘‘ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں۔ اسم تفضیل کے استعمال کے تین طریقے ہیں۔ (ا)معرف باللام۔ (۲)مضاف ہوکر۔ (۳)من کے ساتھ، اور یہاں ان میں سے کوئی طریقہ بھی ملحوظ نہیں ہے۔
۶… ’’کلمن‘‘ املاء صحیح نہیں ہے۔ کل من لکھنا چاہئے تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔
چند نمونے اور بھی ہدیہ قارئین ہیں:
۷… (نورالحق حصہ دوم ص۱، خزائن ج۸ ص۱۸۷،۱۸۸) ’’کالضمان‘‘ املاء غلط ہے۔ پیاسے کی عربی ظمان بالظاء ہے نہ کہ بالضاد۔
۸… (اربعین نمبر۳ ص۳۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲۴) ’’الحجر النبی‘‘ مضاف کو معرف باللام لایا گیا ہے جو قانون کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔
۹… (اربعین نمبر۲ ص۳۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲۴) ’’(انت قابل) کا ترجمہ تو قابلیت رکھتا ہے‘‘ قابلیت رکھنا، کی عربی قبول نہیں ہے۔ اس طرح کی عربی انشاء پردازی عجمیت کا نتیجہ ہے۔
۱۰… (کتاب البریہ) مرزاقادیانی کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں وہ اپنے ایک عدالتی مقدمہ اور اس سے بری ہو جانے کا مفصل ذکر کرتے ہیں۔ ٹائٹل پر انہوں نے ’’فبرأہ اﷲ مماقالوا‘‘ بھی لکھ دیا ہے۔ لیکن بری ہو جانے کی عربی ’’بریۃ‘‘ لکھ کر مرزاقادیانی نے اپنی عربی دانی کا راز فاش کر دیا ہے۔ انہیں اس موقع پر قرآن کریم کی آیت ’’برأۃ من اﷲ‘‘ بھی یاد نہیں آئی۔
پنجم یہ کہ مرزاقادیانی نے بعض باتیں ایسی لکھ دی ہیں جو بالکل خلاف واقعہ اور غلط ہیں۔ اب یا تو مرزاقادیانی نے دانستہ جھوٹ بولا ہے۔ یا لاعلمی کی وجہ سے وہ ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ بہرحال ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ غلط بیانی کی صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔
۱… اس سے پہلے آپ اربعین کے حوالے سے مسیح موعود کے بارے میں وہ پیش گوئیاں