’’مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے کہ وہ کسی غیرملکی حکومت کے زیرسایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیرملکی حکومت سے جہاد کرنا ضروری ہے۔ جہاد کے اس تصور سے مسلمانوں میں ایک جوش اور ولولہ ہے اور وہ جہاد کے لئے ہر لمحہ تیار ہیں۔‘‘
پادری صاحبان نے ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق انکشاف کیا۔
یہاں کے باشندوں کی بہت بڑی اکثریت پیری مریدی کے رجحانات کی حامل ہے۔ اگر ہم اس وقت کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعویٰ کرنے کو تیار ہو جائے تو اس کے حلقہ نبوت میں ہزاروں لوگ جوق درجوق شامل ہو جائیں گے۔ لیکن مسلمانوں میں سے اس قسم کے دعویٰ کو تیار کرنا ہی بنیادی کام ہے۔ یہ مشکل حل ہو جائے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کے زیرسایہ پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
ان ہر دو اقتباسات کے ساتھ مندرجہ ذیل حقائق اور واقعات پیش نظر رکھ کر دیانتداری سے سوچئے اور پھر فیصلہ دیجئے کہ مرزائی نبوت کا کاروبار کن محرکات اور عوامل کا نتیجہ ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا خاندان انگریز بہادر کا پرانا خدمت گزار اور جاں نثار تھا۔ مرزاقادیانی نے اپنی تصنیفات میں باربار اس کا ذکر کیا ہے اور غالباً ان کی کوئی تصنیف بھی اس عہد وفاداری کی تجدید سے خالی نہیں ہے۔ مرزاقادیانی اپنی خاندانی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی وفاداری کا یقین اس انداز میں دلاتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کاسہ لیسی اور چاپلوسی متصور نہیں ہوسکتی۔ آج برصغیر کا وہ مسلمان جس کے باپ دادا نے ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں انگریزوں سے کچھ تعاون کیا تھا۔ تاریخ کو پڑھ کر ندامت محسوس کرتا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی ہیں کہ وہ اسی کو طغرائے امتیاز اور سرمایۂ افتخار قرار دیتے ہیں۔ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ وہ انگریز کے زیرسایہ مملکت کے کوچوں اور بازاروں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ سے افضل قرار دیتے ہیں۔ العیاذ باﷲ!
مرزاقادیانی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میرا والد مرزاغلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ