نوٹ: حضرت مسیح علیہ السلام (عیسیٰ) کے نزول کا جو ساڑھے تیرہ سو سال سے زیادہ سالوں کا مسلمانوں میں عقیدہ چلا آرہا ہے اور اس بارے میں کثیر تعداد احادیث وارد ہیں اور مرزا غلام احمد کا پہلے یہی عقیدہ تھا جیسا کہ انشاء اللہ ہم شرک کی بحث میں آگے جا کر بیان کریں گے۔ اس عقیدہ سے فرار ہوکر ایک نیا عقیدہ گھڑ لیا ہے۔ وہ یہ کہ حضورﷺ حیات ظاہری کے ساتھ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
اس بات کا قرآن پاک پر بھی افترا باندھا ہے کہ یہ بشارت قرآن پاک دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک تفاسیر واحادیث اور بزرگان مقتدمین اور متاخرین کے اقوال میں کہیں یہ نہیں ملتا اور نہ ملے گا مرزا غلام احمد پر یہ محاورہ کیسا اچھا چسپاں ہوتا ہے۔ خدا جب دین لیتا ہے تو عقل بھی چھین لیتا ہے۔
۵…
روضہ آدم کا جو تھا نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار
(ارتمین اردو ص۸۴، براہین احمدیہ۵ ص۱۴، خزائن ج۲۱ ص۱۴۴)
آدمم نیز احمد مختار در برم جامہ ہمہ ابرار
(نزول المسیح ۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
میں کبھی آدمی کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(درثمین اردو ص۷۴، براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص۱۳۳)
نوٹ:
روضہ آدم کا جو تھا نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار
اس شعر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ختم نبوت کا انکار کیا ہے اور اپنے آپ کو ختم نبوت کا مدعی بنا رہا ہے جو شان رسالت میں کھلی گستاخی ہے اور آگے کبھی اپنے آپ کو احمد مختار بناتا ہے۔ کبھی کچھ کبھی کچھ آخر تھک کر کہہ دیا کہ میری نسلیں ہیں بے شمار۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر ایک کی نسل تو ایک ہی ہوتی ہے۔ دوغلہ کوئی ہی ہوتا ہے۔ مگر مرزا دوغلہ سے بھی بڑھا ہوا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ زیادہ نسلوں والا حرامی ہوتا ہے۔ العاقل تکفیہ الاشارۃ!