السلام کی شان میں کیسے تنقیص کی ہے اور بکواس بکی ہے اور۱۵ سے لے کر ۲۵ تک وہ اقوال بھی ملاحظہ کئے ہوں گے کہ جن میں اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے اچھا اور بہتر گردانا ہے اور پھر کمال یہ ہے کہ مرزا اپنی بازاری رنگین گالیوں اور توہین آمیز کلمات کو خدا کی طرف سے وحی اور الہام بنا رہا ہے۔ کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ منجانب اللہ ہوتا ہے اور میری ہر بات وحی الٰہی ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
۱… ’’میں خدا کے حکم سے بولتا ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۳۷، خزائن ج۱ ص۴۲۷)
۲… ’’جو لوگ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے۔‘‘ (ازالہ ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
۳… ’’اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے معلوم ہے… کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۹۳،۹۴، خزائن ج۵ ص۹۳،۹۴)
نیز ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ مرزا کی فحش کلامی اور رنگین گالیاں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں مرزا بدبخت نے بکی ہیں۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ تمام خدا کی طرف سے ہیں۔ ہذا افتراء عظیم!
مرزائی عذر
’’یہ سخت کلامی عیسائیوں سے التزامی اور جوابی طور پر کی گئی ہے۔‘‘
ابو المنصور: یہ بالکل اور سراسر غلط ہے۔ پہلے عبارات دوبارہ پڑھ لیں تمہیں پتہ چل جائے اور نیز مرزا نے لکھا ہے:
۱… ’’میں نے جوابی طور پر کسی کو گالی نہیں دی۔‘‘ (مواہب الرحمن ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۲۳۶)
نیز مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تعلیم تو یہ ہے کہ:
۲… ’’بدی کا جواب بدی کے ساتھ مت دو نہ قول سے نہ فعل سے۔‘‘
(نسیم دعوت ص۵، خزائن ج۱۹ ص۳۶۵)
۳… ’’کسی کو گالی مت دو گو وہ گالیاں دیتا ہو۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱)
شاید یہ قول کہ کسی کو گالی مت دو گو وہ گالیاں دیتا ہو اس لئے لکھا ہے کہ مرزا غلام احمد انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیتے دیتے تھک گیا ہو اور تھک ہار ہانپ کر یہ کہہ دیا ہو ورنہ مرزا غلام احمد نے شاید ہی کوئی نبی یا ولی یا صحابی چھوڑا ہو جس کو برا بھلا نہ کہا ہو اور اس کی گالیاں چند ایک ہم پہلے بھی نقل کر آئے ہیں۔