پاک میں عیسیٰ ابن مریم فرمایا ہے۔ حالانکہ اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ جیسے یہ آیت شاہد ہے: ’’علی المولودلہ رزقہن وکسوتہن‘‘ مگر عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی باپ نہ تھا۔ اس لئے والدہ طیبہ طاہرہ کی طرف منسوب کردیا۔
جیسا کہ آپ کی پیدائش کی مثال حضرت آدم علیہ السلام جیسی قرآن پاک نے بیان فرمائی ہے۔ ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (پ۳ رکوع۱۴)‘‘ {بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال حضرت آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا اس کو ہو جا تو وہ ہوگیا۔}
یعنی جیسے آدم علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے جیسا کہ اس آیت مبارکہ سے بھی پتہ چلتا ہے اور یہ آیت قابل حفظ ہے: ’’اذ قالت الملائکۃ یمریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیہا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین ویکلم الناس فی المہد وکہلاً ومن الصلحین، قالت رب انّٰی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر، قال کذالک اﷲ یخلق ما یشاء واذاقضیٰ امرا فانما یقول لہ کن فیکون (پ۳ رکوع۱۳)‘‘ {اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام مسیحٔ عیسیٰ ابن مریم ہے اور عزت والا ہوگا دنیا وآخرت میں قرب والا اور لوگوں سے کلام کرے گا گہوارے میں اور پکی عمر میں صالحین میں سے ہوگا۔ بولی اے میرے رب میرے بچہ کہاں سے ہوگا؟ مجھ کو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ یونہی پیدا کرتا ہے۔ جو چاہے۔ جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا۔ وہ فوراً ہوجاتا ہے۔}
دیکھئے اس آیت کے ترجمہ کو اگر آپ خوب سمجھ لیں تو مرزا قادیانی کی آنے والی اور گزشتہ تمام عبارتیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ لکھی گئی ہیں۔ سب آپ پر واضح ہوجائیں گی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں وجیہاً یعنی باعزت اور مرتبہ والے اور قرب والے اور نیکو کار کے لفظ استعمال کئے ہیں اور بتایا ہے کہ آپ بچپن میں گفتگو کریں گے۔
پکی عمر میں بھی (یعنی آسمانوں سے آکر گفتگو کرنا کیونکر آپ اس عمر سے پہلے ہی آسمان پر اٹھائے گئے تھے) اور آپ مرزا کے اقوال بھی آپ کی شان میں پڑھ چکے ہیں اور پڑھ بھی لیں