مرزائی عذر
’’ذریۃ البغایا کا معنی کنجریوں کی اولاد نہیں بلکہ سرکش لوگ مراد ہیں۔‘‘
ابو المنصور:
جواب نمبر۱…یہ بالکل ہی غلط ہے مرزا غلام احمد نے خود مندرجہ ذیل کتب میں اس لفظ کا معنی کنجریوں کا بیٹا۔ (انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص۲۸۲) خراب عورتوں اور دجال کی نسل۔ (نور الحق ص۱۲۳ حصہ اوّل، خزائن ج۸ ص۱۶۳) بازاری عورتیں۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۷، خزائن ج۱۶ ص۴۹) پر کیا ہے۔
نیز قرآن پاک میں ہے: یہودیوں نے مریمؓ کو عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد کہا تھا ’’وما کانت امک بغیاً‘‘ {تیری ماں زناکار اور بدکار نہ تھی۔}
جواب نمبر۲… اگر یہ گالی نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ جو مرزا غلام احمد پر ایمان لایا یا لائے گا وہ ذریۃ البغایا ہے۔ بتائیے کیا خیال ہے۔ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی اور ہونی بھی نہیں چاہئے بلکہ وہ ہم کو دعائیں دیں اس لئے کہ مرزا غلام احمد نے لکھا ہے:
گالیاں سن کر دعادو پاکے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دیکھائو انکسار!
تم نہ گھبرائو مگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو ان کو چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
(درثمین ص۸۴، خزائن ج۲۱ ص۱۴۴)
نوٹ: فقیر نے جو ماقبل مرزا غلام احمد کی گالیاں تین سرخیوں کے تحت (۱… پیروں کو گالیاں۔ ۲…علماء کو گالیاں۔ ۳… عوام کو گالیاں)نقل کی ہیں اس میں آپ نے خوب پڑھ لیا ہوگا۔ کتنی بدزبانی اور بے لگامی سے کام لیا گیا ہے اور کیسی بے ہودہ بکواس کی ہے۔ مثلاً مولویت کے شتر مرغ، شیاطین الانس، کو ڑ مغز، بدبخت، مفتریو، وحشی فرقہ، کیوں شرم سے کام نہیں لیتا۔ بے ایمانو، نیم عیسائیو، دجال کے ہمراہیو، اے بدذات فرقہ مولویو، بعض خبیث طبع مولوی، یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ خنزیر سے زیادہ پلید، اے مردار خور مولوی اور گندی روحو، اے اندھیرے کے کیڑو، شیطان ملعون سیفہون کا نطفہ، بدگو، منحوس، نسل بدکاراں، جنگلوں کے سور، کتیوں کی اولاد، ذریۃ البغایا وغیرہ لکھا ہے۔