۳… ’’مولوی ثناء اللہ نے مرزا کے قصیدہ کی صرفی نحوی عروضی غلطیاں نکالیں جن کا انکار مرزا نہ کرسکا۔‘‘ اور یہ ہے جھوٹے نبی کی حقیقت کہ صرفی، نحوی، عروضی غلطیاں قصیدہ میں کرتا رہا۔ پھر مولوی ثناء اللہ نے مقابلے میں ایک قصیدہ شائع کیا جو الہامات مرزا کے ص۱۰۳ پر موجود ہے۔ نیز مرزا ان کی ایک غلطی بھی ثابت نہ کرسکااور لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا کی مقرر میعاد کے اندر لکھا گیا اور اہلحدیث اخبار میں چھپا۔ مرزا کی کئی پیشین گوئیاں الکذب فوق الکذب من الکذب ثابت ہوئیں۔ ذرا پیچھے مرزا غلام احمد کے صدق وکذب کے میعار دوبارہ پڑھ لیں تاکہ مرزا غلام احمد کی شخصیت تم پر اچھے طریقہ سے واضح ہوجائے۔
مرزائی عذر
’’یہ دعائیں نہ تھیں بلکہ مباہلہ تھا اور مباہلہ میں طرفین ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں پر مرزا قادیانی اکیلے تھے لہٰذا مباہلہ منعقد نہ ہوا۔ مرزاقادیانی کے مولوی ثناء اللہ سے پہلے مرنے میں کوئی حرج لازم نہیں آتا۔‘‘
ابو المنصور:
جواب۱… ہم کہتے ہیں کہ یہ دعا تھی دیکھو آئینہ حق نما اس کے بعد مرزا قادیانی نے دعا کی اور کہا کہ جو چاہے مولوی ثناء اللہ اس کے نیچے لکھ دے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ ہے۔ مرقوم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ء بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچے میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۹)
نوٹ: اب اس میں یہ شرط نہیں کہ اگر وہ نہیں لکھیں گے تو یہ دعا نہیں رہے گی بلکہ یہ ایک دعا ہے اور مولوی ثناء اللہ کو اختیار ہے جو چاہیں لکھیں۔ دعا جھوٹے کے حق میں قبول ہوگی۔ چنانچہ ہو بھی گئی اور اپنی ہی دعا سے مرا جو اس اشتہار میں مرقوم تھی کہ طاعون سے یا ہیضہ وغیرہ سے ہلاک ہوگا۔
جواب۲… اسی موضوع پر مولوی ثناء اللہ اور قاسم مرزائی کے درمیان بمقام لدھیانہ مناظرہ ہوا اور تین تین صد روپیہ ہر ایک فریق نے بچن سنگھ ثالث کے پاس رکھا تو قاسم علی مرزائی شکست کھا گیا اور مولوی ثناء اللہ کو چھ صد روپیہ مل گیا۔
جواب۳… نیز آخری فیصلہ ۱۹۰۷ میں مباہلہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مرزا نے خود ۱۹۰۲ء میں مباہلہ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا تو پھر آخری فیصلہ میں مباہلہ کیونکر مراد ہوسکتاہے۔