اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے لے آئو۔‘‘
نوٹ: اگر رجوع ہوچکا تو اتنا واویلا کرنے سے منع کیوں نہیں کیا۔ (دیکھو الفضل ۲۰؍جولائی ۱۹۶۰ مرزا محمود اس کے جواب میں کہ تیری دعائیں پوری نہیں ہوتیں۔ لکھتا ہے کہ حضرت صاحب (یعنی مرزا غلام احمد) کی بھی تو پوری نہیں ہوئیں۔ چنانچہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ: ’’پھر آتھم کے متعلق پیشین گوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں ہے۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر پانچ سال کی تھی۔ مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے۔ جب آتھم کی پیشین گوئی کا آخری دن تھا تو کتنے کرب واضطراب سے دعائیں کی گئیں میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔ حضرت مسیح موعود (مرزا غلام قادیانی) ایک طرف دعا میں مشغول تھے۔‘‘
مرزائی عذر نمبر:۲
’’فریق سے مر اد ایک عبداللہ آتھم نہیں۔ تمام عیسائی ہیں۔‘‘
(انوار الاسلام ص۲،۸، خزائن ج۹ ص۲)
ابوالمنصور:
۱… پھر تو تمام عیسائیوں کا خاتمہ پندرہ ماہ کے بعد ہوجانا چاہئے تھا اور عیسائیوں نے توبہ بھی نہیں کی کہ بلکہ اپنے مذہب پر اڑے رہے ہیں۔
۲… نیز مرزا قادیانی نے خود مقدمہ میں تسلیم کیا ہے کہ: ’’میری فریق سے مراد عبداللہ آتھم ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۸۸، خزائن ج۱۳ ص۲۰۶) ’’عبداللہ آتھم کے متعلق ہم نے شرطیہ پیشین گوئی کی تھی اگر رجوع بحق نہیں کرے گا تو مر جائے گا۔ عبداللہ آتھم کی درخواست پر یہ پیشین گوئی صرف اس کے واسطے کی تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشین گوئی نہ تھی۔‘‘
مرزائی عذر نمبر:۳
’’عبداللہ آتھم نے دل سے رجوع کرلیا تھا اس لئے ہلاک نہیں ہوا۔‘‘
(انوارالاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲)
ابوالمنصور: یہ بالکل افتراء ہے اور کذب بیانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عبداللہ آتھم نے پندرہ ماہ کے اندر رجوع کیا تھا یا کہ پندرہ ماہ کی میعاد کے بعد، اگر پہلے کیا تو مرزا قادیانی نے اعلان کیوں نہیں کیا اور اتنا پریشان ہوہوکر اور رو رو کر دعائیں کیوں کرتا رہا۔ اگر پندرہ ماہ کے بعد رجوع کیا ہے تو مرزا کی پیشین گوئی کی مدت تو گزر گئی۔ معلوم ہوا کہ مرزا سراسر جھوٹا اور کذاب ہے۔