ناظرین کرام! غور سے پڑھنا کیسی ٹھوس اور مؤکد پیشین گوئی کی ہے جس میں اس کے عدم کا تصور ہی نہیں آتا اور اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کر کہا ہے۔ اب ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ پیشین گوئی پوری ہوئی ہے یا نہیں؟ تو یہ ظاہر ہے کہ پوری نہیں ہوئی۔ لہٰذا مرزا غلام احمد بقول خود تمام مذکورہ الفاظ کا مستحق ہوا۔ نیز مرزائی اس پیشین گوئی کی طرف سے مختلف جواب دیتے ہیں جو حسب ذیل نقل کرتا ہوں۔
مرزائی عذرنمبر:۱
’’عبداللہ آتھم نے اس مجلس میں ستر آدمیوں کے سامنے توبہ کرلی تھی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۰۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۲۱۶)
ابو المنصور: اگر اس نے اس وقت رجو ع کرلیا تھا تو مرزا کو اسی مجلس میں اعلان کردینا چاہئے تھا کہ چونکہ اس نے رجو ع کرلیا ہے اس لئے میری پیشین گوئی میں کوئی حرج نہ ہوگا۔ حالانکہ مرزا غلام احمد کو بعد میں بھی یقین تھا کہ یہ ضرور پوری ہوکر رہے گی۔ تب ہی تو وظیفے کرائے اور رو رو کر تضرع اور زار ی سے دعائیں کیں۔ مگر پھربھی کچھ نہ بنا۔ ملاحظہ ہو!
(نمبر۳۱۲ سیرت المہدی حصہ اول ص۷۸) ’’پیر سراج الحق نعمانی نے مجھ سے بیان کیا جب آتھم کی پیشین گوئی کی میعاد قریب آئی تو اہلیہ حضرت مولوی نور الدین نے خواب میں دیکھا ان سے کوئی کہتا ہے کہ ایک ہزار ماش کے دانے پر ایک ہزار دفعہ سورۃ الم تر کیف پڑھنی چاہئے اور پھر ان کو کہیں کنویں میں ڈال دیا جائے اور پھر واپس منہ پھیر کر دیکھا نہ جائے۔ خواب حضرت خلیفہ اوّل نے مرزا قادیانی کی خدمت میں عرض کیا۔ حضر ت علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس خواب کو ظاہر میں پورا کردینا چاہئے۔ جب آتھم کی میعاد کا ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے